تازہ ترین
کام جاری ہے...
بدھ، 7 اگست، 2013

علم کے فروغ اور سود کی تعدیم کا تعلق

ایک اور بڑا مسئلہ جس پر حکومتِ وقت خصوصی توجہ دینے کے عزم کا اظہار کرچکی ہے، تعلیم کا مسئلہ ہے۔ تعلیم کی سطح اور پھیلاؤ دونوں اس قدر توجہ طلب ہوچکے ہیں کہ ان میں مزید تاخیر کی گنجائش بہت کم ہے۔ دسیوں ایجوکیشن کمیشنوں نے پاکستان کی تخلیق سے پہلے بھی اور اس کے مابعد بھی تمام متعلقہ مسائل کے جواب دیئے ہوئے ہیں، (سوائے ایک کے) اور ان پر اصلاح کی چنداں گنجائش نظر نہیں آتی۔ دقت صرف ایک ہے اور اس کا نام سرمایہ ہے۔ تعلیم کو نتیجہ خیز اور عام کرنے کے لئے جتنے وسائل کی ضرورت ہے وہ سرے سے میسر ہی نہیں۔ نئے سکول بناؤ، انہیں تخلیقی و فنّی رجحان دو، یونیورسٹی کی تعلیم اور بالخصوص آرٹس کی تعلیم بےانتہا قابلیت کے طلباء کے لئے مختص کرو، لیبارٹریاں بناؤ، کھیل کے میدان بناؤ، پرائمری مدارس کی تعداد میں تین گنا اضافہ کرو، ایک یا دو استادوں والے پرائمری سکول صحیح تعلیمی بنیاد فراہم کرنے سے قاصر رہتے ہیں، ان میں استادوں کی تعداد بڑھاؤ۔ اب اگر ہزاروں نئے سکول کھولے جائیں اور ہزاروں سکولوں میں اساتذہ کی کمی پوری کی جائے اور اس پر مستزاد یہ اصرار کہ اساتذہ کی تنخواہوں میں اتنا اضافہ کرو کہ ملک کے بہترین نوجوان اس پیشہ کی طرف راغب ہوجائیں۔ جس تجویز کو بھی دیکھو ٹنوں سونا مانگتی ہے۔ ایک بات جو کسی ایجوکیشن کمیشن نے نہیں بتائی وہ یہ ہے کہ ٹنوں سونا کہاں سے آئے گا؟ حکومت کی آمدنی تو وہی ہے جو ٹیکسوں سے وہ حاصل کرتی ہے۔ ان ٹیکسوں کو قومی پیداوار کے ایک مناسب جز سے آگے لے جانا ترقیِ معکوس کا پیش خیمہ بن جاتا ہے، لہٰذا بنیادی حل اس تمام مسئلے کا قومی پیداوار میں انقلاب آفریں اضافہ ہے۔ اس سطح کا اضافہ اسی سطح کی سرمایہ کاری کے بغیر ممکن نہیں، اور سرمایہ کاری کی سطح میں انقلاب آفریں اضافہ سود اور بنکنگ ریزرو ختم کرنے کے بغیر ناممکن ہے۔
 
ایک چھوٹی سی مثال سے شاید بات واضح ہوجائے، آج شرح سود صفر پر لے آئیے تو ملک کے تمام بیمار کارخانے صحت مند ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے کسی کا بیلنس شیٹ اٹھا کر دیکھیے تو ایک قدرِ مشترک جو ہر بیمار کارخانے میں نظر آئے گی، یہ ہے کہ کارخانے پر سود کا بوجھ اس کی مجموعی آمدنی سے کہیں زیادہ ہے۔ اب نقصان اٹھا کر کارخانہ چلانا کسی کے بس میں نہیں ہوتا، لہٰذا کارخانہ بند ہوجاتا ہے اور بیمار کارخانہ کہلاتا ہے۔ ان بیمار کارخانوں میں ملک کی مجموعی صنعتی سرمایہ کاری کا ایک چوتھائی لگا ہوا ہے۔ آج شرح سود صفر پر لے آئیے تو ان میں سے ہر کارخانہ صحت مند کارخانہ بن جاتا ہے اور ہزار ہا لوگوں کی روزی اور حکومت کی آمدنی میں بیش بہا اضافے کی صورت نکل آتی ہے۔ صحیح پالیسی بنانے میں سوائے قوتِ فیصلہ کے کچھ خرچ نہیں ہوتا، الٹا حکومت کا خزانہ بھرنا شروع ہوجاتا ہے۔
 
پھر شرح سود صفر تک گرنے سے محض بیمار کارخانے ہی صحت مند نہیں ہوں گے، صحت مند کارخانے چھلانگیں لگانے لگیں گے اور پیداوار بڑھانے کی بھرپور کوششیں کریں گے، مسابقت کے تقاضے نت نئے کارخانے وجود میں لائیں گے اور پھر محض نئی صنعتیں اور نئی ٹیکنالوجی ہی میسر نہیں آئے گی، زراعت پیشہ لوگ ٹریکٹر اور ٹیوب ویل لگائیں گے کیونکہ سرمایہ بغیر سود کے میسر ہے۔ متوسط لوگ پاور لوم قسم کے چھوٹے چھوٹے کارخانے لگائیں گے، غریب لوگ چھوٹے چھوٹے مرغی خانے یا ایک دو بھینس خرید کر اپنی روزی پیدا کرلیں گے اور جو اس قابل بھی نہیں، وہ ان ملازمتوں کی طرح رجوع کرسکیں گے جو سرمایہ کاری میں اضافہ کی وجہ سے پیدا ہوجائیں گی۔ ان سب کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک طرف بےروزگاری صفر کی سطح تک اتر جائے گی، دوسری طرف ہر سمت سے قومی دولت میں اضافہ ہونا شروع ہوجائے گا اور اس مسلسل اضافے کا ایک حصہ حکومت کے خزانے تک پہنچ کر اسے بھرنا شروع کردے گا۔ یہ واحد طریقہ ہے جس سے وہ ٹنوں سونا میسر آسکتا ہے جس سے تعلیم (اور بہت سی چیزوں) کی نتیجہ خیز اصلاح اور توسیع دونوں کا راستہ کھل جاتا ہے۔

(شیخ محمود احمد کی ’سود کی متبادل اساس‘ سے اقتباس)
 
پسِ تحریر: نومبر 1977ء میں اسلامی نظریاتی کونسل نے سود کی متبادل اساس کا فیصلہ کرنے کے لئے ماہرینِ معاشیات اور ممتاز بنک کاروں پر مشتمل ایک پینل تشکیل دیا تھا۔ شیخ محمود احمد ایک ممتاز ماہرِ معاشیات کی حیثیت سے اس پینل کے رکن تھے اور آپ نے فروری 1980ء میں پینل کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ پر مارچ 1980ء میں ایک جامع اختلافی نوٹ تحریر کیا تھا جو بعدازاں ’سود کی متبادل اساس‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔ اس اختلافی نوٹ کو بالغ نظر اور سنجیدہ فکر حلقوں میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی، تاہم اس میں پیش کردہ سفارشات کو پاکستان میں مروج سودی نظام کے خاتمے کے لئے سرکاری سطح پر استعمال کرنے کی زحمت کبھی گوارا نہیں کی گئی۔

9 تبصرے:

  1. شیخ محمود احمد صاحب کے اختلافی نوٹ کا ایک ایک لفظ سونے میں تولے جانے کے قابل ہے۔ تعلیم و معیشت کی ترقی کے حوالے سے سنجیدگی سے غورو فکر کرنے والے جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی تعلیمی ترقی اس کی اقتصادیات سے مربوط ہوتی ہے اور جب تک ہم معاشی اصلاحات نہیں کریں گے تعلیم کا تنزل جاری رہے گا۔
    تعلیمی اور معاشی ترقی میں دوسرا بڑا عنصر قوانین کے نفاذ کا ہے اس پر لکھنے کی میں کبھی کوشش کروں گا۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. شکریہ ساجد بھائی۔
    ہماری نااہل قیادت یہی سمجھنے سے قاصر ہے کہ مسائل کی جڑیں کہاں سے پھوٹتی ہیں اور اگر اسے سمجھ آ بھی جائے تو خلوصِ نیت کا فقدان حکمتِ عملی کی توضیع اور نفاذ کے رستے میں چٹان کی طرح حائل ہوجاتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. آپ بیک وقت اُستاذ ۔ صحافی ۔ مترجم ۔ شاعر اور بٹ ہیں ۔ رہتے بھی لاہور میں ہیں ۔ یہ تو یہاں آ کر ہی معلوم ہوا لیکن آیا میں تحریر کا عنوان پڑھ کر تھا جو کہ میرے لئے بہت کشش رکھتا ہے ۔ ہماری بدقسمتی کہہ لیجئے کہ اللہ نے اس سرزمیں پر بڑے بڑے جوہر پیدا کئے مگر قوت والوں نے ان کی محنت کو جلاء نہ بخشی بلکہ ہوا نہ لگنے دی ۔ حکومت کا کارخانہ قائد اعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی ہلاکت کے بعد سے انگریز کے پروردہ بابوؤں نے قابو کر لیا تھا اور اُن کے بعد اُن کی ہم پیشہ نسلیں چلا رہی ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب معشت کو تھوڑا سا نمائشی سہارہ دینا ہوتا ہے تو سٹیٹ بنک سے سود کی شرح میں تھوڑی سی کمی کا حکمنامہ جاری ہو جاتا ہے یعنی یہ لوگ اس اصول سے واقف ہیں جو شیخ محمود احمد صاحب نے واضح طور پر بیان کیا تھا مگر اس پر عمل اسلئے نہیں کیا جاتا کہ بابوؤں کی اجارہ داری ختم ہونے کا خدشہ ہے

    جواب دیںحذف کریں
  4. پہلا تبصرہ شائع کرنے کے بعد شک گذرا کہ میرا پہلا فقرہ کوئی غلط فہمی پیدا نہ کر دے سو وضاحت ضروری سمجھی ۔ میں اُستاذ رہ چکا ہوں میرا تعلق جموں کشمیر سے ہے اور لاہور میں میرے آباؤ اجداد جناب قطب الدین ایبک صاحب کے زمانہ میں رہتے تھے ۔ میرے دادا کے دادا کا گھر کناری بازار میں تھا جو میں نے لاہور میں اپنی تعلیم کے دوران شاید 1959ء میں دیکھا تھا ۔ وہ کرایہ دار کو ہی دے دیا تھا ۔ چنانچہ میری 3 صفات آپ سے ملتی ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  5. سر، بےحد شکریہ۔ سچ کہوں تو آپ کا میرے بلاگ پر آنا میرے لیے بہت خوشی اور افتخار کا باعث ہے۔ آپ سے اسلام آباد میں ایک مختصر سی ملاقات شاکرالقادری صاحب کے اعزاز میں منعقدہ تقریب کے دوران ہوئی تھی۔
    آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں، ہمارے ہاں نظامِ حکمرانی پر کالے انگریزوں کی اجارہ داری ایک ایسی لعنت ہے جس سے ہم شاید کبھی بھی پیچھا نہیں چھڑا پائیں گے اور جب تک ہم اس سے پیچھا نہیں چھڑائیں گے تب تک ہمارے مسائل کا کوئی دیرپا حل میسر نہیں آسکے گا!

    جواب دیںحذف کریں
  6. ویسے مجھے بھی آپ کے نام سے یوں ایک نسبت ہے کہ میرے آباؤ اجداد کشمیر سے ہجرت کے بعد سیالکوٹ آئے تھے اور وہاں انہوں نے بھوپال والا میں سکونت اختیار کی تھی۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. تجاویز تو بلاشبہ بڑی زبردست قسم کی ہیں۔
    لیکن انہیں اُن کے کانوں تک پہنچانا بڑا مشکل ہے، جو فیصلہ سازی کرتے ہیں۔
    اور "جیسے ہے، جہاں ہے" کی بنیاد پر چلتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. وحید صاحب، بہت شکریہ۔ یہ تجاویز ان کے کانوں تک پہنچ چکی ہیں اور وہ انہیں اپنے مفادات سے متصادم تصور کرتے ہوئے ردی کی ٹوکری میں پھینک چکے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. اگر سود کے رد کا حکم قرآن میں نہ ہوتا تو انگریزوں کے چیلے اسے کب کا اپنا چکے ہوتے

    جواب دیںحذف کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں