تازہ ترین
کام جاری ہے...
منگل، 25 مارچ، 2014

فصلِ گل آئی کہ دیوانے کا موسم آیا


مصر کے معزول صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے 529 حامیوں کو عدالت کی جانب سے سزائے موت سنائی گئی ہے جبکہ 16 افراد کو عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔ مرسی کے حامی صرف ایک فرد یا جماعت کے حمایتی نہیں ہیں بلکہ وہ ایک نظریے اور ایک فکر کے حامی ہیں۔ وہی نظریہ جو بندوں کو حریت کا رستہ دکھاتا ہے اور وہی فکر جو استعماریت کو کھلے عام دعوتِ مبارزت دیتی ہے۔ اس دعوتِ فکر و عمل کا لازمی نتیجہ یہی تھا کہ ان افراد کو نشانِ عبرت بنا دیا جائے تاکہ آئندہ کوئی استعماریت کے خلاف اٹھنے کی جرات ہی نہ کرسکے۔ استعماری گماشتوں کے خیال میں، عدالت کی جانب سے سنائی جانے والی سزا جہاں مرسی کے حامیوں کو ایک عبرتناک انجام سے دو چار کرے گی، وہیں اس کے ذریعے دنیا کے دیگر ممالک میں حریتِ فکر کے داعیین و حاملین کو یہ پیغام بھی ملے گا کہ استعمار کی مخالفت کے نتائج کس قدر سنگین ہوسکتے ہیں۔

عالمی دیہات کہلانے والے اس خطۂ ربع مسکون پر استعماریت نے امریکہ اور اس کے حواریوں کی مدد سے اس مضبوطی سے پنجے گاڑ رکھے ہیں کہ ان کے تسلط سے آزادی کا تصور بھی محال دکھائی دیتا ہے۔ اسی تسلط کو مصر میں عوام کی اکثریتِ رائے سے قائم ہونے والے اخوان المسلمین کی حکومت نے کسی بڑی اور گہری منصوبہ بندی کے بغیر چیلنج کردیا۔ استعمار کے سامنے ڈٹنے کا یہ اعلان کرتے ہوئے اخوان المسلمین کی جانب سے قائدِ حزبِ اقتدار محمد مرسی شاید یہ بھول گئے کہ ان کے پڑوس میں واقع مسلمان ممالک اس سلسلے میں کسی بھی طور ان کی حمایت نہیں کریں گے بلکہ بوقتِ ضرورت انہی ممالک کی جانب سے اخوان المسلمین اور اس کی قائم کردہ حکومت کو شدید مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

مصری دارالحکومت قاہرہ میں گزشتہ برس 3 جولائی کو جب جنرل عبدالفتاح السیسی نے منتخب حکومت کا تختہ الٹتے ہوئے سرکاری ٹیلیویژن کے ذریعے براہِ راست اقتدار پر قابض ہونے کا اعلان کیا تو جامعۃ الازہر کے سربراہ احمد الطیب اور مصر میں قبطی عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ طوادروس نے فوری طور پر فوج کی حمایت کا اعلان کردیا۔ بعدازاں، اس حوالے سے بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سربراہان اور دفاترِ خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات بہت معنی خیز تھے۔ فوج کے اقتدار پر قبضے کے بعد سعودی عرب اور امارات نے جنرل السیسی کو عبوری حکومت کو مستحکم بنانے اور 'عوامی بغاوت' کچلنے کے لئے خطیر مالی امداد بھی دی۔

کوئی زنجیر، کوئی حرفِ خرد لے آیا
فصلِ گل آئی کہ دیوانے کا موسم آیا

مصر میں فوجی بغاوت کے ذریعے منتخب حکومت کو ہٹانا اور مشرق و مغرب سے اس اقدام کی حمایت، دراصل استعماریت کے ساتھ یکجہتی کا اظہار تھا۔ اب مصری عدالت نے صرف دو سماعتوں کے بعد اخوان المسلمین سے تعلق رکھنے والے پانچ سو سے زائد کو سزائے موت کا جو حکم سنایا ہے، یہ بھی استعماریت کی مخالفت کو روکنے کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جنرل السیسی، اس کے حواری اور ان کے پشت پناہ عیاش سعودی و اماراتی حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ ظلم و بربریت پر مبنی اس فیصلے کے ذریعے چند سو افراد کو موت کے گھاٹ اتار کر وہ قافلۂ حریت کا راستہ روک سکتے ہیں۔ یہ ان استعماری گماشتوں کی خام خیالی ہے اور انہیں یہ معلوم نہیں کہ دنیا کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ حریت کی خاطر جان دینے والوں کا لہو رائیگاں نہیں جاتا۔ مصر میں بھی جن مردانِ حر کے لئے آج پروانۂ موت جاری کیا گیا ہے، کل ان کے خون کی سرخی مصر کی گلیوں اور بازاروں میں آزادی کے رنگ بکھیرنے کا وسیلہ بنے گی۔

آخر کو ہو کے لالہ اُگا نو بہار میں
خونِ شہیدِ عشق نہ زیرِ زمیں رہا

2 تبصرے:

  1. جو دبا سکو تو صدا دبادو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو بجھا سکو تو دیا بجھا دو
    صدا دبے گی توحشر ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیا بجھے گا تو سحر ہو گی

    جواب دیںحذف کریں
  2. مٹا سکے تو مٹا لے دنیا
    بنانے والا بنا ہی دے گا

    جواب دیںحذف کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں