میں ایک عام پاکستانی ہوں جو فرقہ وارانہ عصبیتوں اور معاشرتی درجے بندیوں سے ہٹ کر زندگی کو دیکھنے اور جانچنے کا ایک منفرد اور یگانہ نہیں تو کم از کم معتدل نظریہ ضرور رکھتا ہے۔ میں اپنی اس بات کے عین الٹ بھی ہوسکتا ہوں اور میرے ملک میں ایسے سینکڑوں ، ہزاروں یا لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ موجود ہیں جو اس زندگی کے اس قرینے کو حرزِ جاں بنائے ہوئے ہیں اور وہ اپنے نظریے کے برعکس کچھ دیکھنا اور سننا گوارا کر ہی نہیں سکتے، اور نہ ہی وہ اپنے معاشرتی درجے سے نیچے اتر کر کسی چیز کا جائزہ لینے کو تیار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا نظریات و درجات کے کیل کانٹوں سے لیس افراد و اجتماعات کے اس معاشرے میں کسی بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے؟ ایک رجائیت پسند آدمی کے طور پر تو میں اس بات کا جواب اثبات میں ہی دوں گا لیکن اگر ذرا دیر کو میں حقیقت پسندی کا چشمہ آنکھوں پر چڑھا لوں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ میرا جواب اس سے مختلف بھی ہوسکتا ہے۔
میرے ملک میں جن طبقات کو سب سے زیادہ طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں سے ایک طبقہ ان مذہبی حضرات کا ہے جو عبادت گاہوں میں عموماً قلیل معاوضے کے عوض مختلف مذہبی رسومات و عبادات کی انجام دہی کے فریضے کو اپنے ذمے لیے ہوئے ہیں۔ میرے معاشرے میں مدرسے میں پڑھنے والا بچہ اپنے ہم چشموں کی طرح عام بچوں کے ساتھ کھیل کود میں حصہ نہیں لے سکتا لیکن کروڑوں لوگوں کی طرح میں توقع یہی کرتا ہوں کہ اس کا رویہ اپنے باقی ہم عمروں سے بہتر نہیں تو کم از کم ان جیسا ضرور ہونا چاہیے۔ میں نے کبھی خود سے یہ بات پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ مدرسے کی چار دیواری کے اندر ایک مخصوص طرز کے مطابق زندگی جینے کا سلیقہ سیکھ کر کئی برس بعد جب وہ بچہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہا ہوگا اس وقت میں اسے اپنے محلے کی مسجد کی ذمہ داری سونپ کر معاشرے کے باقی لوگوں سے کاٹ دوں گا تو وہ کٹا پھٹا آدمی ایک غیرمعمولی زندگی کیونکر نہیں جیے گا؟ میں نے کبھی یہ جاننے میں بھی دلچسپی نہیں لی کہ میرے محلے کی مسجد کے امام/خطیب، موٴذن یا خادم کے ساتھ جب محلے کے لوگ ایک عام آدمی جیسا میل جول نہیں رکھتے تو اس کے دل پر کیا گزرتی ہے۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ مسجد کے چندے یا محلے کے مخیر حضرات کے رحم و کرم پر پلنے والے مذکورہ افراد کی گزر بسر کیسے ہوتی ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود میں ان افراد سے یہ امید رکھنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ وہ معاشرے میں لوگوں کے ذہنوں، رویوں اور کردار پر مثبت طریقے سے اثرانداز ہوں اور ان میں ایسی انقلاب آفریں تبدیلی لائیں کہ وہ لوگ ایک عادلانہ اور منصفانہ نظام کے قیام کے لیے کوشاں ہوجائیں۔
میرے وطن میں سب سے زیادہ رشک اور تحسین کی نگاہ سے جن طبقات کو دیکھا جاتا ہے ان میں سے ایک طبقہ ان سرکاری افسران کا ہے جن کی اکثریت چودہ جماعتیں پڑھنے کے بعد مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہو کر ”عوامی خدمت“ کے لیے ملازمت کا آغاز کرتی ہے۔ اس ملازمت کے پہلے مرحلے میں ہی ان افسران کو جس تربیت گاہ میں ملک بھر سے اکٹھے کیا جاتا ہے وہاں ان کو ایسا طرزِ بود و باش سکھایا جاتا ہے جس سے انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ آگے چل کر انہوں نے نہ تو عام آدمی کی طرح زندگی گزارنی ہے اور نہ ہی عام آدمی سے تعلقات کی کوئی معقول سطح قائم کرنا ان کے لیے مفید اور سودمند ثابت ہوگا۔ تربیت کے مختلف مراحل سے گزرنے کے دوران ان مستقبل کے افسران کے ذہن میں یہ بات اچھی طرح نقش ہوجاتی ہے کہ اس ملک کے عوام کی تقدیر کے وہ خالق ہیں اور ساتھ ہی ان میں وہ شانِ بے نیازی بھی پیدا ہوجاتی ہے جو خالقِ تقدیر کا الوہی و انفرادی وصف ہے۔ یہ نئے نویلے افسران جب ملازمت کی باقاعدہ شروعات کرتے ہیں تو اس شانِ بے نیازی کی حفاظت کے لیے انہیں کچھ پاسداران بھی مہیا کردیئے جاتے ہیں اور ان پاسدارانِ بے نیازی کی تعداد عہدوں میں ترقی کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اب یہ افسران نہ تو عام معاشرے کا حصہ رہتے ہیں اور نہ ہی انہیں معاشرے میں بسنے والے عام لوگوں کے حالات کے بارے میں کوئی خبر ہونے پاتی ہے۔ اس سب کے باوجود میں یہ خوش کن خیال اپنے دل میں پالے رکھتا ہوں کہ یہ افسران عوامی خدمت کی ذمہ داری احسن طریقے سے انجام دیں اور عام آدمی کے لیے معاشی ناہمواریوں اور دیگر مختلف النوع وجوہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا مستحکم اور مستقل حل فراہم کریں۔ علاوہ ازیں، میں بھی چاہتا ہوں کہ ان میں سے ہر شخص خود کو افسر سمجھ کر شاہانہ زندگی گزارنے کی بجائے اپنے آپ کو عوام کا خادم خیال کرتے ہوئے عام آدمیوں کی طرح جیے۔
نظریاتی عصبیتوں اور معاشرتی درجے بندیوں کی قید میں گرفتار مذکورہ دونوں طبقات سے توقعات کا ایک جہان وابستہ کرنے والا میں خود ان دونوں طبقات میں سے کسی سے بھی تعلق نہیں رکھتا کیونکہ میں تو ایک عام پاکستانی ہوں جو عصبیتوں اور درجے بندیوں سے ہٹ کر زندگی کو دیکھنے اور جانچنے کا ایک منفرد اور یگانہ نہیں تو کم از کم معتدل نظریہ ضرور رکھتا ہے۔ اپنے اسی معتدل نظریے کے ساتھ میں نے 9 نومبر کو قومی جوش و جذبے سے سرشار ہو کر علامہ اقبال کا یومِ ولادت بہت دھوم دھام سے منایا اور اقبال کے خواب کے نتیجے میں شکل پذیر ہونے والے اس خطہٴ ارض کے استحکام کے لیے دل سے دعا بھی مانگی کیونکہ اس دیس میں نہ تو میرے مذہبی نظریے کو کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی مجھ پر کوئی غیر حکمرانی کررہا ہے۔
پس نوشت: یہ مضمون روزنامہ 'نئی بات' کے ادارتی صفحات پر 11 نومبر، 2014ء کو شائع ہوا۔
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔