یہ جو بزرگ آپ کو تصویر میں دکھائی دے رہے ہیں ان کا نام جیمز کرسٹوفر ہیریسن ہے۔ دنیا انہیں ایک معجزاتی انسان کے طور پر جانتی ہے۔ انہیں 'سنہرے بازو کا حامل شخص' بھی کہا جاتا ہے۔ یہ 27 دسمبر 1936ء کو پیدا ہوئے۔ 1950ء میں جب جیمز چودہ برس کے تھے اس وقت ان کے سینے کا آپریشن ہوا۔ آپریشن کے دوران ان کی جان بچانے کے لیے تیرہ لیٹر خون استعمال کیا گیا۔ آپریشن کے بعد جیمز کو اس بارے میں پتہ چلا تو انہوں نے عزم کرلیا کہ وہ جب اٹھارہ برس کے ہوجائیں گے تو اپنے خون کا عطیہ دے کر لوگوں کی جانیں بچایا کریں گے۔
اٹھارہ برس کی عمر کو پہنچنے کے بعد انہوں نے اپنے عزم کے مطابق خون عطیہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو ڈاکٹروں کو پتہ چلا کہ جیمز کے خون میں کچھ ایسے غیرمعمولی طور پر مضبوط جراثیم پائے جاتے ہیں جو نوزائیدہ بچوں کو ریسس (Rhesus) نامی بیماری سے بچانے کے لیے کام آسکتے ہیں۔ ڈاکٹروں نے جب یہ بات جیمز کو بتائی تو انسانی جانیں بچانے کا ان کا عزم مزید پختہ ہوگیا اور انہوں نے ریسس سے متاثرہ نوزائیدہ بچوں کی جانیں بچانے کے لیے اپنا پلازمہ (Plasma) عطیہ کرنا شروع کردیا۔
خون کے برعکس چونکہ پلازمہ ہر دو سے تین ہفتے کے بعد عطیہ کیا جاسکتا ہے، لہٰذا جیمز نے اسے اپنا معمول بنالیا۔ مئی 2011ء میں پچھتر برس کی عمر کو پہنچنے سے پہلے تک جیمز ایک ہزار بار اپنا پلازمہ عطیہ کرچکے تھے جس کی مدد سے چوبیس لاکھ سے زائد بچوں کی جانیں بچائی گئیں۔ انہوں نے عطیات کا یہ سلسلہ بعدازاں بھی جاری رکھا جو تاحال چل رہا ہے اور وہ تقریباً ہر دو ہفتے کے بعد اپنا پلازمہ عطیہ کرتے ہیں۔ ان کے پلازمہ سے جن بچوں کی جانیں بچائی گئیں ان میں ان کی اپنی بیٹی ٹریسی کے بچے بھی شامل ہیں۔
خون کے عطیات کے حوالے سے جیمز نے عالمی سطح پر ایک ریکارڈ قائم کیا ہے۔ جنوری 2013ء میں ایک نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے اس ریکارڈ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ "یہ واحد ریکارڈ ہے جس کے ٹوٹنے کی میں خواہش رکھتا ہوں کیونکہ اگر کوئی اسے توڑے گا تو اسے ایک ہزار (سے زائد) عطیات دینے ہوں گے۔" جیمز جن دنوں چھٹیوں پر ہوتے ہیں وہ تب بھی باقاعدگی کے ساتھ عطیات کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ ان کے خون کی مدد سے ریسس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی ٹیکے بھی بنائے گئے ہیں جو مذکورہ بیماری سے ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے نوزائیدہ بچوں یا زچگی سے قبل حاملہ ماؤں کو لگائے جاتے ہیں۔
ان کے خون کی غیرمعمولی اہمیت کے پیش نظر جیمز کی زندگی کا دس لاکھ ڈالرز کے عوض بیمہ کیا گیا۔ 7 جون 1999ء کو ان کی انسانیت کے لیے خدمات کے صلے میں جیمز کو 'میڈل آف دی آرڈر آف آسٹریلیا' سے نوازا گیا۔ انہیں 'آسٹریلین آف دی ائیر' کے اعزاز کے لیے بھی نامزد کیا گیا، تاہم وہ اس اعزاز کو حاصل نہ کرسکے۔ جیمز کو شاید اس اعزاز کی ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ ان کی خدمات کے سامنے یہ اعزاز بہت ہی چھوٹا ہے۔ جیمز جیسے لوگ کسی ایک ملک، علاقے یا خطے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے فخر کا باعث ہیں۔ ایسے لوگ کسی ایک نسل یا قبیلے نہیں بلکہ ساری انسانیت کے سر کا تاج ہیں۔ ایسے لوگوں کے دم سے ہی ایثار، قربانی اور اخلاص جیسے الفاظ آج بھی بامعنی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔