تازہ ترین
کام جاری ہے...
اتوار، 6 اکتوبر، 2013

دس مبارک راتیں‎

قرآن مجید کی سورۃ الفجر میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
والفجر (1) و لیال عشر (2)
ترجمہ: قسم ہے فجر کی۔ قسم ہے دس راتوں کی۔
 
محدثین و مفسرین کرام کے مابین ان آیات کی تفسیر کے ذیل میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا اس فجر سے مراد کوئی ایک مخصوص صبح ہے یا ہر روز طلوع ہونے والی سحر مگر اس حوالے سے محدثین و مفسرین کرام کی بڑی جماعت متفق ہے کہ یہاں بیان ہونے والی دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی راتیں ہیں جبکہ بعض مفسرین کرام نے اس سے مراد رمضان المبارک کے آخری عشرے کی راتیں یا محرم الحرام کے پہلے عشرے کی راتیں لی ہیں۔ بہرطور اس سورہ مبارکہ میں جن دس راتوں کا ذکر ہے، انہیں بہت ہی مبارک و مکرم اور فضیلت والی قرار دیا گیا ہے۔ جو لوگ ان راتوں سے مراد ذی الحجہ کے عشرہ اول کی راتیں لیتے ہیں، وہ ان راتوں کو عبادت میں مشغول رہ کر گزارتے ہیں اور اس عشرے کی پہلی سے نویں تاریخ تک روزے بھی رکھتے ہیں۔
 
صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے: نبی مکرم ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان (ذی الحجہ کے) دس دنوں میں کئے جانے والے نیک اعمال سے عام دنوں میں کی جانے والی کوئی بھی نیکی زیادہ مقبول نہیں۔ بعض صحابہ کرام نے دریافت کیا، جہاد بھی نہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، جہاد بھی نہیں، الاّ یہ کہ کوئی شخص اپنی جان اور مال لے کر اللہ کی راہ میں جہاد کرے اور ان میں سے کوئی بھی چیز لے کر واپس نہ لوٹے (یعنی شہید ہوجائے)۔
 
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ زیادہ مبارک ہے یا ذی الحجہ کا پہلا عشرہ؟ آپ نے جواب دیا، رمضان المبارک کے آخری عشرے کی راتیں ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی راتوں سے زیادہ افضل ہیں کیونکہ ان میں لیلة القدر شامل ہے جو تمام راتوں کی سردار ہے۔ اور ذی الحجہ کے پہلے عشرے کے دن رمضان المبارک کے آخری عشرے کے دنوں سے زیادہ مبارک ہیں کیونکہ ان میں یومِ عرفہ شامل ہے جو تمام دنوں میں سب سے زیادہ افضل و اشرف ہے۔

ایک تبصرہ:

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں