پاکستان کے
علاقے سوات سے تعلق رکھنے والی بچی ملالہ یوسفزئی کو امن کا نوبیل انعام
نہ ملنے کی خبر آئی اور یوں ہر طرف پھیل گئی جیسے جنگل میں لگی ہوئی آگ۔
میں اس وقت کسی کام میں مصروف تھا، لہٰذا موبائل فون پر اس خبر سے متعلق
موصول والے پیغام کو میں نے اتنی ہی اہمیت دی جتنی میں عمومی خبروں سے
متعلق پیغامات کو دیا کرتا ہوں کہ ایک بار پڑھا اور پھر حذف کردیا۔ کام سے
فارغ ہونے کے بعد موبائل کے ذریعے ہی پہلے ٹوئٹر اور پھر فیس بک پر حالات
کا جائزہ لیا تو ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ کوئی انعام نہ ملنے پر ماتم
کررہا تھا تو کوئی طعنے دے دے کے مزے لے رہا تھا۔ کہیں انعام کا فیصلہ کرنے
والی جیوری کو گالیاں پڑرہی تھیں تو کہیں نوبیل انعام کو ہی بےوقعت قرار
دیا جارہا تھا۔ یہ سب دیکھ کر مجھے یکایک اپنے دوست الیاس لبرلیے کا خیال
آیا کیونکہ وہ انتہائی حساس آدمی ہے اور ملالہ کے معاملے میں اس کی حساسیت
کچھ اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
الیاس لبرلیا اور میں ایک دوسرے کو تب سے جانتے ہیں جب ہم نے چیزوں کے بارے میں کوئی واضح مؤقف اپنانے کا سلیقہ بھی نہیں سیکھا تھا۔ گویا یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہم لڑکپن سے ایک دوسرے کے ہمجولی ہیں اور ہم نے سکھ دکھ کی کئی بہاریں اور خزائیں مل کے دیکھی اور جھیلی ہیں۔ الیاس کا پورا نام تو کچھ اور ہے مگر اپنے خیالات میں 'روشنی' کی بھرمار کے باعث اس نے 'لبرلیا' کا دم چھلہ اپنے نام کے ساتھ جوڑ لیا ہے اور اب یہی دم چھلہ اس کی پہچان بن کر رہ گیا ہے۔
خیر، الیاس لبرلیے کا خیال آتے ہی میں نے اسے فون کیا۔ گھنٹی تو بج رہی تھی مگر وہ فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ میں مسلسل کوشش کرتا رہا کیونکہ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اس وقت کیا کررہا ہوگا۔ بالآخر کچھ دیر کے بعد لبرلیے نے فون اٹھا ہی لیا۔ میں نے حسبِ معمولی سلام سے بات کا آغاز کیا تو آگے سے لبرلیے کی سسکیوں اور آہوں نے میرا استقبال کیا۔ میں اس صورتِ حال کے لیے پہلے سے تیار تھا، لہٰذا میں نے اپنے روایتی بےتکلف انداز میں لبرلیے کو ایک گالی دیتے ہوئے پوچھا، 'تیرا کون مرگیا اے؟' 'بٹ، اوہناں دا بیڑا غرق ہووے۔ اوہناں نیں چنگا نئیں کیتا۔' لبرلیے نے اتنی بات کہی اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گیا۔ میں چونکہ لبرلیے کو پہلے بھی کئی مرتبہ بدترین صورتِ حال میں سنبھال چکا تھا، لہٰذا مجھے اندازہ تھا کہ مجھے اس وقت کیا کرنا ہے۔ میں نے پھر اسی انداز میں اس سے پوچھا، 'توں کجھ کھادا وی اے کہ بس اپنی بھین دا غم منانا پیا ویں؟' لبرلیے کچھ نہ بولا مگر اس کی ابھرتی ہوئی سسکیوں اور آہوں نے میرے سوال کا نفی میں جواب دیدیا۔ مجھے لگا کہ اب ذرا کسی اور طریقے سے اس کا علاج کرنا پڑے گا، لہٰذا میں نے اس سے پوچھا کہ وہ اس وقت کہاں ہے اور کیا کررہا ہے۔ اس نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ گھر پر ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ میں کچھ دیر میں اس کے گھر پہنچ رہا ہوں۔
پچیس منٹ بعد میں نے لبرلیے کے گھر پہنچ کر دروازے پر دستک دی تو اس کے بڑے بھائی خالد مطمئن برآمد ہوئے۔ الیاس لبرلیے کے برعکس اس کے بڑے بھائی خالد مطمئن بہت ہی صابر و شاکر آدمی ہیں اور وہ بدترین حالات میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ میں نے لبرلیے کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اندر ہے اور وہ سب گھر والے میرا ہی انتظار کررہے تھے کیونکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ لبرلیے کو ایسی صورتِ حال میں میں ہی ٹھیک کرسکتا ہوں۔ میں اندر داخل ہوا اور گھر میں موجود افراد کو سلام کرتے اور حال احوال پوچھتے ہوئے سیدھا لبرلیے کے کمرے میں چلا گیا، جہاں وہ کسی جہنمی داروغے کی طرح الٹا پڑا تکیے میں منہ دے کے رو رہا تھا۔ میں نے جاتے ہی اس کی کمر پہ دوہتڑ مار کر اسے اٹھایا تو لبرلیا مجھ سے لپٹ کر کسی 'تازہ بیوہ' کی طرح دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ میں نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا، 'بیٹا، چپ کر جا، باقی دا ماتم محرم چہ کرلئیں۔' لبرلیا کہاں سننے والا تھا، سو وہ بس روتا ہی رہا۔ کچھ دیر کے بعد اس کی حالت کچھ درست ہوئی تو سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ میں نے پوچھا، 'ہن دس کیہ تکلیف اے تینوں؟' 'بٹ، اوہناں ۔۔۔۔۔۔ نے ملالہ دا انعام کسے ہور نوں دے دتا وے۔ ایہہ دھاندلی اے۔ ایہدے پچھے کوئی سازش اے۔' لبرلیا اب بھی آہیں بھررہا تھا۔ 'اچھا! کیہڑی سازش؟' میں واقعی متجسس تھا۔ 'جیوری دے بندے غلط سن۔ اوہناں نوں کسے نے کہیا سی کہ ملالہ نوں انعام نہ دینا۔' لبرلیے نے آہ بھر کر جواب دیا۔ 'تیرا کیہہ خیال اے کون ہوئیے گا ایہدے پچھے؟ شاہداللہ شاہد یا فرید پراچہ تے جیوری چہ نئیں بیٹھے سن کدھرے؟' میں اسے نارمل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ 'بٹ، مذاق نہ کر۔ میں سچ کہہ رہیا واں، اے سازش اے۔ ایہناں دا بیڑا غرق ہوجانا وے۔ اوہ تنظیم جنہوں انعام دتا نیں ہن اوہدا وی بیڑا غرق ہوئیے گا۔' لبرلیا عورتوں کی طرح بددعائیں اور کوسنے دے رہا تھا مگر اب آہوں میں کمی آچکی تھی۔ میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا، 'فکر نہ کر پتر، اوہناں نے کہیا اے کہ ملالہ ایس واری نئیں جِتی تے کوئی گل نئیں، اسی اگلے سال وی اوہنوں انعام دے سکنے واں۔' میری بات سن کر لبرلیے کی آنکھوں میں ہلکی سی چمک پیدا ہوئی۔ 'واقعی، انج ہوسکدا اے؟' لبرلیے کے لہجے میں تجسس تھا اور آہیں اس تجسس کے اندر چھپی ہوئی خوشگواریت کے نیچے دب چکی تھیں۔ میں نے کہا، 'آہو بیٹا، جیہڑے بندے اوہناں دے ہندے نیں، اوہناں نوں تے اوہ کدی وی کجھ وی دے سکدے نیں۔ توں چل ہن اٹھ کے منہ دھو تے چل روٹی کھان چلیے۔' 'روٹی تے گھر وی پکی اے۔' لبرلیے نے اطلاع دینے کے انداز میں کہا۔ 'مینوں پتا اے کہ گھر وی روٹی پکی اے پر اوس روٹی تے تیری بھین نوں انعام نہ ملن دے صدمے دا ختم نئیں پڑھیا جاسکدا۔' میں نے قہقہہ لگاتے ہوئے لبرلیے کو چھیڑا تو وہ بھی میری بات سن کر مسکراتے ہوئے منہ دھونے کے لئے چلا گیا۔
بہت خوب تحریر
جواب دیںحذف کریںہم الیاس لبرلیے کے غم میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ ہمیں بھی شک ہے کہ اس جیوری میں یہودیوں کی بجائے درپردہ کچھ طالبانی لوگ بھی شامل تھے
بہت خوب ، میڈیا کا کمال تو دیکھو ایک نجی تنظیم کے قیام کردہ ایک انعام کو کیسے پوری دنیا میں مشہور کیا ہوا ہے، اور وہ تنظیم جسے چاہے وہ انعام دے، جسے ملے وہ معتبر ٹھرنے لگتا ہے اور باقی جتنے مرضٰی مفکر ہوں وہ جاہل ہی سمجے جائیں گے
جواب دیںحذف کریںھا ھا ھا بہت ہی خوبصورت تحریر ہے۔ آج کل سارے لبرل ہی بیوا کی طرح بین کرنے میں مصروف ہیں۔
جواب دیںحذف کریںویسے بھی یہ بیوا نہ بھی ہوں تو بیسوا کی طرح تو ہوتے ہی ہیں
عاطف بھائی مضمون تو اچھا تھا ،لیکن درمیان درمیان میں یہ پنجابی اسی لگتی تھی جیسے چاول میں کنکر۔
جواب دیںحذف کریںساتھ میں اگر ممکن ہو تو یہ تحریر بھی پڑھ لیں۔
http://mansoorurdu.blogspot.com/2013/02/blog-post.html