بالآخر ہماری سیاسی قیادت نظام کی آئینی اور جمہوری جڑوں کا دفاع یا جرنیلوں کے مطالبات کے سامنے مزاحمت کرنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ پاکستان میں ایک بار پھر فوجی عدالتیں قائم کی جارہی ہیں۔ ان عدالتوں کو قائم کرنے کے لیے سیاست دانوں نے اختیارات کی علیحدگی کے اصول بگاڑنے، آئین کی بنیاد فراہم کرنے والے حقوق کی عمارت توڑنے اور کمزور ریاستی اداروں کو بہتر بنانے کا کام چھوڑنے پر اتفاق کیا ہے۔
یہ درست ہے کہ ہمیں عسکریت پسندی کے خلاف لڑنے کے لیے ایک مربوط حکمت علمی درکار ہے اور اس سلسلے میں سیاسی اور فوجی قیادت کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن فوجی عدالتیں اس مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے تو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ عدالتیں فوجی قیادت کے ایماء پر قائم کی جارہی ہیں۔
گزشتہ روز مسلح افواج کے شعبۂ تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر نے اسلام آباد میں ہونے والی کثیر جماعتی کانفرنس سے پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کا یہ بیان نقل کیا کہ فوجی عدالتوں کا قیام "فوج کی خواہش نہیں بلکہ غیرمعمولی حالات کا تقاضہ ہے۔" ایک روز قبل، آئی ایس پی آر نے جنرل راحیل کا کور کمانڈرز کے اجلاس سے خطاب کا یہ حصہ نقل کیا تھا کہ "دہشت گردوں اور ان کے ہمدردوں کے خلاف سخت کارروائی" کو یقینی بنانے کے لیے "جراتمندانہ اور بامعنی فیصلوں" کی ضرورت ہے۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ "چھوٹے مسائل کے لیے وسیع سیاسی اتفاق رائے کو گنوایا" نہیں جانا چاہیے۔ یہ جمہوریت کے لیے افسوس کا مقام ہے کہ ایک فوجی سربراہ کھل کر سیاسی عمل کے لیے ہدایات دے رہا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ آئین میں ترمیم کا اختیار پارلیمان کو ہے اور دستور کے بنیادی ڈھانچے کے تصور کی اس وقت تجدید ہوئی تھی جب عدالتی تقرری کے عمل پر پارلیمان اور افتخار چوہدری کی سربراہی میں چلنے والی عدالتِ عظمیٰ کے درمیان ٹھن گئی تھی۔ امید کی جاتی ہے کہ جمہوری نظام کے تحت چلنے والی پارلیمان سول اداروں کی وقعت نہیں گھٹائے گی، کجا کہ ایک ایسے ادارے کو مزید طاقت دیدی جائے جو ماضی میں کئی بار آئین کو معزول کر چکا ہے۔
غور کیجئے کہ سول حکومتوں کے تحت ہونے والی سابقہ آئینی ترامیم فوجی آمروں کی پیچھے چھوڑی ہوئی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے تھیں اور اب سول حکومت خود ہی فوج کو مزید بااختیار بنانے کے لئے آئین کو گندا کررہی ہے۔ اکیسویں آئینی ترمیم سول اور جمہوری مقاصد سے غداری کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔
تیسری بات یہ ہے کہ حکومت اور پارلیمان کو موجودہ قانونی نظام اور عدالتی عمل کو فوری طور پر مستحکم بنانے سے ان کے اپنے سوا تو کسی نے بھی نہیں روکا۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے پر جو وقت اور کوششیں صرف کی گئی ہیں اگر انہیں فوجداری قانون کی ساخت درست کرنے کے لیے فوری اصلاحات اور انتظامی اقدامات پر لگایا جاتا تو موجودہ نظام دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کوئی صورت اختیار کرچکا ہوتا۔ افسوس کی بات ہے کہ سیاسی قیادت نے اپنی جمہوری ذمہ داریوں سے دستبردار ہوگئی۔ شاید ہتھیار ڈالنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔
پس نوشت: یہ مضمون مؤقر انگریزی جریدے 'ڈان' کے گزشتہ روز شائع ہونے والے اداریے کا ترجمہ ہے۔
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔