تازہ ترین
کام جاری ہے...
جمعہ، 9 جنوری، 2015

اسی لاکھ بمقابلہ ڈیڑھ ارب


فرانس کے دارالحکومت پیرس میں پیش آنے والا واقعہ افسوسناک ہے۔ اس واقعے کے بارے میں جان کر مجھے آنجہانی ہیلن تھامس بہت یاد آئیں۔ جون 2010ء میں اس نوے سالہ بوڑھی نے امریکی صدر کی سرکاری رہائش قصرِ سفید کے باغیچے میں کھڑے ہو کر ایک ٹیلیویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے یہودیوں کے بارے میں کہا کہ 'وہ فلسطین سے دفع ہوجائیں۔' ان الفاظ کا ہیلن تھامس کے منہ سے نکلنا تھا کہ پوری امریکی انتظامیہ حالتِ اسہال میں مبتلا ہوگئی۔ جیسے ہی یہ بات منظرِ عام پر آئی، فوری طور پر اس بی بی سے نہ صرف معافی نامہ لکھوایا گیا بلکہ اسے نوکری سے بھی برخاست کروا دیا گیا کیونکہ بعض لوگوں کے خیال میں اس بیان سے اسرائیل میں بسنے والے اسی لاکھ یہودیوں کی دلآزاری ہوئی تھی۔

یورپ اور امریکہ میں ایک عرصے سے آزادیِ اظہار کے نام پر اسلامی شعائر اور شخصیات کی توہین کے ذریعے دنیا بھر میں رہنے والے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی دلآزاری کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلمان جب بھی بین الاقوامی سطح پر ان توہین آمیز حرکات کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں تو یہ کہہ کر بات کو دبانے یا ٹالنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مغرب میں لوگوں کو اپنے خیالات کے اظہار کی آزادی حاصل ہے، لہٰذا حکومتیں اس بات پر قدغن لگانے کا کوئی حق نہیں رکھتیں۔ یہ بات تو بیّن حقیقت ہے کہ آزادیِ اظہار کا بھونڈا جواز دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے پیش کیا جاتا ہے ورنہ یورپ اور امریکہ میں ایسے کئی موضوعات ہیں جن کے حوالے سے اظہارِ رائے پر باقاعدہ پابندیاں عائد ہیں۔ ان موضوعات میں ہولوکاسٹ سب سے اہم ہے جو یہودیوں کے لیے دکھتی رگ کی حیثیت رکھتا ہے اور اسی وجہ سے یورپ اور امریکہ میں اس کے خلاف بات کرنا ممنوع ہے۔

ہمارے ہاں جو لوگ یورپ اور امریکہ کا نام آتے ہی ادب سے سر جھکا لیتے ہیں، انہوں نے بھی کبھی اس دہرے معیار کے حوالے سے مغرب کو ہدفِ تنقید بنانے کی زحمت گوارا نہیں کی کیونکہ ایسا کر کے وہ اپنے اوپر ہونے والی عنایات کی بارش سے محروم ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ مغرب (اور مغرب نوازوں) کی یہود پروری کو اقبال نے تو اسرائیل کے قیام سے بھی بہت پہلے بھانپ لیا تھا، اسی لیے تو انہوں نے مسلمانوں سے کہا تھا:

تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے

اب جہاں تک پیرس میں پیش آنے والے واقعے کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ جب آپ کسی شخص کو گھاؤ پر گھاؤ لگاتے چلے جاتے ہیں تو اس سے کسی معقول ردعمل کی توقع تو ہرگز نہیں کی جاسکتی۔ ویسے بھی دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی اپنے مذہب کے حوالے سے جذباتی کیفیات ایک دوسرے سے انتہائی مختلف ہیں اور ان جذباتی کیفیات کے صرف اور صرف اسی صورت میں مثبت اور متوازن رہنے کی توقع کی جاسکتی ہے کہ اسلامی شعائر اور شخصیات کے خلاف ہونے والی ہرزہ سرائی سے متعلق عالمی سطح پر قانون سازی کی جائے اور بقائے باہمی کے اصولوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے صرف اپنے ہی نہیں، دوسروں کے بھی جذبات و احساسات کا خیال رکھا جائے۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں