تازہ ترین
کام جاری ہے...
ہفتہ، 14 دسمبر، 2013

اپنے باپ کا نہ سمجھو مال۔۔۔

وفاقی حکومت توانائی بحران پر قابو پانے کے لئے ملک بھر میں تین کروڑ انرجی سیورز مفت تقسیم کررہی ہے۔ ایک انرجی سیور کی قیمت کم از کم سو روپے بھی فرض کرلی جائے تو اس حساب سے تین کروڑ انرجی سیورز کی خریداری پر تین ارب روپے کی خطیر رقم خرچ ہوگی۔ اس منصوبے کی اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ میں تشہیر پر جو خرچہ اٹھ رہا ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔ اسی طرح فی گھر دو انرجی سیورز کی تقسیم کے لئے ظاہر ہے بندے بھی درکار ہوں گے کہ چراغ کے جن یا آسمان کے فرشتے اس طرح کے کام نہیں کرتے۔ علاوہ ازیں، ان انرجی سیورز کی خریداری کے بعد انہیں بحفاظت رکھنے کے لئے گودام وغیرہ کی بھی ضرورت پیش آئے گی کہ کسی فیکٹری سے لے کر انہیں فوراً شہر شہر اور قریہ قریہ جا کر پہنچا آنا عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔ اگر تشہیر، خریداری کے بعد گودام میں رکھنے اور پھر ہر شہر، قصبے اور گاؤں تک ان انرجی سیورز کو پہنچانے کا خرچ دس کروڑ روپے تصور کرلیا جائے تو یوں کل ملا کر اس منصوبے کا خرچہ ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ارب دس کروڑ روپے تک پہنچ جائے گا۔

ہمارے اندازے کے مطابق آنکی گئی اس تین ارب روپے سے زائد رقم کو ذہن میں رکھئے اور موجودہ حکومت کی ایک اور غیردانشمندانہ حرکت پر غور کیجئے کہ رواں برس پاکستان کے بیرون ممالک میں موجود ستر میں سے بائیس سفارتخانوں کو بند کرنے کی تجویز سامنے لائی گئی۔ تجویز کے مطابق جن ممالک میں موجود سفارتخانے بند کرنے کا سوچا جارہا ہے وہ ممالک لاطینی امریکہ، افریقہ اور وسط ایشیاء میں پڑتے ہیں۔ ان بائیس سفارتخانوں کو بند کر کے حکومت سالانہ تقریباً ایک ارب روپے کی بچت تو کر لے گی مگر غیرملکی (بالخصوص لاطینی امریکہ اور افریقہ کی) منڈیوں تک رسائی، عالمی برادری میں اثر و رسوخ اور دیگر سفارتی و تزویراتی حوالوں سے جو نقصان ہونے کا اندیشہ ہے، وہ اس بچت سے کہیں مہنگا ثابت ہوگا۔

پاکستان کے عوام اپنے خون پسینے کی کمائی سے مختلف مدات میں ٹیکس ادا کر کے جس خزانے کو بھرتے ہیں وہ نہ تو کسی کے باپ کا مال ہے اور نہ ہی کسی کی والدہ ماجدہ کو جہیز میں ملا تھا۔ جن افراد کو اپنے ووٹوں کے ذریعے منتخب کر کے لوگ اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ملکی معاملات کو چلاتے ہوئے عقل اور ہوش سے کام لیں گے اور ملک کے خزانے کو ایک امانت سمجھ کر استعمال کریں گے۔ ہمارے حکمرانوں کو ذاتی تشہیر اور دریا دلی دکھانے کا اگر اتنا ہی شوق ہے تو اپنی گرہ سے مال خرچ کر کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکیں، اس طرح کے مقاصد کے لئے قومی خزانے کو کیوں استعمال میں لاتے ہیں۔ تین کروڑ انرجی سیورز کی خریداری اور اس منصوبے کی دیگر مدات پر قومی خزانے سے جو اربوں روپے خرچ ہورہے ہیں اتنی رقم سے عوام کی فلاح و بہبود کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کوئی ترقیاتی منصوبہ لگایا جائے تو ملکی مسائل کے حل میں کسی حد تک مدد مل سکتی ہے۔

ایک تبصرہ:

  1. یہ صرف اعتراض برائے اعتراض ہے. ملک پر بجلی کا دباؤ ہے. پیداوار ضرورت سے کم ہے. اسکے اگر بجلی کے استعمال مین بچت کرلی جائے تو کیا حرج ہے. یورپی ممالک مین یہ تجربہ دس برس پہلے ہوا تھا. جتنی بلب کی قیمت ہے اتنی بجلی دو ماہ مین بچ جاتی ہے

    جواب دیںحذف کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں