تین روز قبل کراچی میں مجلسِ وحدت المسلمین کے رہنما علامہ دیدار علی جلبانی کو قتل کردیا گیا اور آج لاہور میں اہلِ سنت والجماعت پنجاب کے صدر مولانا شمس الرحمٰن معاویہ نامعلوم افراد کی فائرنگ سے جاں بحق ہوگئے۔ علامہ جلبانی شیعہ مکتبِ فکر میں اہم حیثیت کے حامل تھے تو مولانا معاویہ دیوبندی مسلک کے سرکردہ لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔
سانحہء راولپنڈی کے بعد پاکستان میں مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کا نیا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے کسی سنّی سے بات کریں تو وہ بھرپور جذباتی انداز میں شیعوں کے خلاف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد سے لے کر دورِ حاضر تک ایسے ایسے واقعات کا حوالہ دیتا ہے کہ جواب میں صلح جوئی پر مبنی کوئی بات کہنا ہی مشکل ہوجاتا ہے اور اگر کسی شیعہ کو کچھ سمجھانا چاہیں تو جواباً وہ بھی تاریخ کے اسی دورانیے کو لے کر ایسے ایسے دلائل پیش کرتا ہے کہ مصلحت کا کوئی امکانی رستہ ہی نظر نہیں آتا۔ ہر مسلک کا ماننے والا خود کو سچا اور پکا مسلمان کہتا ہے مگر جب عمل کا مرحلہ آتا ہے تو وہ وہی سب کچھ کرتا ہے جو اس کی اندھی تقلید اس سے تقاضہ کرتی ہے۔
دنیا کے تقریباً ہر ملک میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے مختلف الخیال لوگ بستے ہیں۔ ان لوگوں کے مابین بھی فکری اختلافات اتنے ہی سنجیدہ اور سنگین ہیں جتنے شیعہ اور سنّی کے نظریاتی جھگڑے مگر وہ اپنے نظریاتی فرق کو ایک طرف رکھ کر بقائے باہمی اور رواداری کے اصولوں کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ پورے عالم میں ایک ہم ہی ہیں جنہیں اپنی دنیا بہتر بنانے سے زیادہ اپنے کسی ہمسائے، دوست یا عزیز کی آخرت سنوارنے کی پڑی ہوتی ہے اور اسی چکر میں ہم خود اذیتِ مسلسل میں رہنے کے ساتھ ساتھ اس شخص کا جینا بھی دوبھر کردیتے ہیں۔
اس بات پر تو ہم سب متفق ہیں کہ پاکستان اور اسلام مخالف قوتیں کسی بھی طور ہمیں مستحکم ہوتے اور پھلتے پھولتے نہیں دیکھ سکتیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان میں مختلف مسالک کے لوگوں کو آپس میں لڑوا کر اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے میں مصروف ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود ہم کبھی بھی اپنے مسلکی دائرے سے نکل کر پاکستان اور اسلام کو ان بیرونی سازشوں سے تحفظ فراہم کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ اقبال نے آج سے کئی دہائیاں پہلے انہی سازشوں کو بھانپتے ہوئے ہمیں ایک نصیحت کی تھی:
سانحہء راولپنڈی کے بعد پاکستان میں مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کا نیا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے کسی سنّی سے بات کریں تو وہ بھرپور جذباتی انداز میں شیعوں کے خلاف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد سے لے کر دورِ حاضر تک ایسے ایسے واقعات کا حوالہ دیتا ہے کہ جواب میں صلح جوئی پر مبنی کوئی بات کہنا ہی مشکل ہوجاتا ہے اور اگر کسی شیعہ کو کچھ سمجھانا چاہیں تو جواباً وہ بھی تاریخ کے اسی دورانیے کو لے کر ایسے ایسے دلائل پیش کرتا ہے کہ مصلحت کا کوئی امکانی رستہ ہی نظر نہیں آتا۔ ہر مسلک کا ماننے والا خود کو سچا اور پکا مسلمان کہتا ہے مگر جب عمل کا مرحلہ آتا ہے تو وہ وہی سب کچھ کرتا ہے جو اس کی اندھی تقلید اس سے تقاضہ کرتی ہے۔
دنیا کے تقریباً ہر ملک میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے مختلف الخیال لوگ بستے ہیں۔ ان لوگوں کے مابین بھی فکری اختلافات اتنے ہی سنجیدہ اور سنگین ہیں جتنے شیعہ اور سنّی کے نظریاتی جھگڑے مگر وہ اپنے نظریاتی فرق کو ایک طرف رکھ کر بقائے باہمی اور رواداری کے اصولوں کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ پورے عالم میں ایک ہم ہی ہیں جنہیں اپنی دنیا بہتر بنانے سے زیادہ اپنے کسی ہمسائے، دوست یا عزیز کی آخرت سنوارنے کی پڑی ہوتی ہے اور اسی چکر میں ہم خود اذیتِ مسلسل میں رہنے کے ساتھ ساتھ اس شخص کا جینا بھی دوبھر کردیتے ہیں۔
اس بات پر تو ہم سب متفق ہیں کہ پاکستان اور اسلام مخالف قوتیں کسی بھی طور ہمیں مستحکم ہوتے اور پھلتے پھولتے نہیں دیکھ سکتیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان میں مختلف مسالک کے لوگوں کو آپس میں لڑوا کر اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے میں مصروف ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود ہم کبھی بھی اپنے مسلکی دائرے سے نکل کر پاکستان اور اسلام کو ان بیرونی سازشوں سے تحفظ فراہم کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ اقبال نے آج سے کئی دہائیاں پہلے انہی سازشوں کو بھانپتے ہوئے ہمیں ایک نصیحت کی تھی:
اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش
اے گرفتارِ ابوبکر و علی ہشیار باش
آپ نے درست سمت توجہ دلائی ہے ۔ میرے ہموطنوں کا مسئلہ دراصل اُس دین اسلام سے عدم شناسائی ہے کہ جس کا وہ دم بھرتے ہیں ۔ عام عادت بن چکی ہے کہ علم حاصل کئے بغیر اپنے آپ کو عالم سمجھا جائے ۔ علم دین کا ہو یا طبیعات یا کیماء یا کوئی اور ۔ ہر جگہ یہی حال ہے جسے طب کی الف بے معلوم نہیں وہ طبیب کو غلط قرار دینے پر تُۃلا رہتا ہے جسے انجنیئرنگ کی کوئی سُدھ بدھ نہیں وہ اپنے آپ کو انجنیئرنگ کا ماہر تصور کرتا ہے ۔ میرا مشاہدہ یا تجربہ یہ کہتا ہے کہ قصور والدین اور اساتذہ کا ہے جو بچوں کے علم حاصل کرنے کی کوشش کی بجائے اُن کیلئے اسناد اکٹھا کرنے کی فکر میں رہتے ہیں ۔ کبھی آپ نے سوچا کہ 4 دہائیاں قبل ایسا کیوں نہیں ہوتا تھا ؟ اسلئے کہ 1972ء کے بعد نظامِ تعلیم بشمول تعلیمی اداروں کے تباہ کر دیا گیا تھا اور جو نیا نظام رائج کیا گیا جس کے نتیجہ میں اۃستاد اورا تعلیمی ادارے کی عزت کی جگہ دولت نے لے لی ۔ ؑصرِ حاضر میں اُس کے نتائج قوم ہر شعبہ میں بھگت رہی ہے
جواب دیںحذف کریںسر، بہت شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںبالکل درست کہا آپ نے کہ اس سلسلے میں والدین اور اساتذہ زیادہ ذمےدار ہیں، اور المیہ یہ ہے کہ آئندہ برسوں تو کیا دہائیوں میں بھی ہمارے سنورنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔
یہ جو لوگ استعمال ہورہے ہین ،وہ بھی انہی گروپوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ تاکہ پکڑے جانے پر بھی انہیں گروپوں کے نام سامنے آے،اصل لوگ پھر بھی پردے میں رہیں۔
جواب دیںحذف کریں