1947ء اور 2014ء کے کیلنڈر ایک دوسرے سے مماثل ہیں، یعنی 1947ء کا آغاز بھی بدھ کے روز ہوا تھا اور 2014ء کی شروعات بھی اسی دن سے ہونے جارہی ہے۔ اس حساب سے آئندہ برس پندرہ اگست اسی دن کو آئے گا جس روز یہ اڑسٹھ برس قبل آیا تھا۔ 1947ء بالعموم برِعظیم ہندوستان کے تمام بسنے والوں اور بالخصوص پاکستانیوں کے لئے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس برس کے آٹھویں مہینے کے وسط میں صرف ہندوستان نامی خطہ ہی تقسیم نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے ایک مخصوص نظریے سے وابستگی رکھنے والے باسیوں نے اپنے لہو سے اپنی تقدیر بھی لکھی تھی۔ تقدیر کی یہ تحریر سرحد نامی لکیر بن کر ہندوستان کے سینے پر کھنچ گئی اور یوں پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔
ہمارے ہاں دو مخالف گروہوں کے مابین پاکستان کے نظریاتی وجود اور دستوری ڈھانچے سے متعلق پائی جانے والی لمبی لمبی اور لاحاصل بحثیں اپنی جگہ، تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے قائدین اسلامی تشخص کی بناء پر ہی الگ مملکت کا مطالبہ کررہے تھے۔ یہ مطالبہ پاکستان نامی عمارت کے لئے نیو کی حیثیت رکھتا ہے اور اگر اس نیو کو ہٹا دیا جائے تو پاکستان کے وجود کا جواز فراہم کرنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہو کر رہ جائے گا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے قیام سے قبل مختلف مذہبی جماعتوں نے اس کی مخالفت بھی کی لیکن وہ مخالفت نظریاتی و اصولی معاملات سے زیادہ منصوبہ جاتی مسائل سے تعلق رکھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد اس کے قیام کی مخالفت کرنے والے بھی قومی زندگی کے دھارے میں ایک موافق قوت کے طور پر شریک ہوگئے۔
1947ء سے آج تک پاکستان کا سفر معاشرتی، معاشی، دستوری اور دیگر حوالوں سے کیسا رہا، اس کا جائزہ آپ اور ہم اپنے اپنے طور پر لے سکتے ہیں کہ ہر شخص کا جائزہ درحقیقت اس کے انفرادی تعصبات کا عکاس ہوتا ہے، اور ہم کسی پر اپنی ذاتی عصبیت کو مسلط کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ گزشتہ چھیاسٹھ سے زائد برسوں میں پاکستان نے بلاشبہ بہت کچھ کھویا اور بہت کچھ پایا۔ جہاں بہت سے مسائل پیدا ہوئے، وہیں بہت سی سہولتوں نے بھی جنم لیا۔ جہاں بعض حوالوں سے تنزلی ہمارا مقدر بنی، وہیں کئی حوالوں سے ترقی نے بھی آگے بڑھ کر ہمیں گلے لگایا۔ جہاں ہمارا قومی لبادہ کچھ بدنما دھبوں سے دغدار ہوا، وہیں بعض تابناک ستاروں نے ہماری اجتماعی مانگ بھی سجائی۔
یہ سب کچھ گزر گیا۔ آج ہمارے پاس اس سب کو بنظرِ غائر جانچنے کا موقع تو ضرور ہے، تاہم ہم ان میں سے کسی بھی امر کے وقوع کو روکنے یا بدلنے پر قدرت نہیں رکھتے کہ گزرے ہوئے وقت کا جائزہ تو لیا جاسکتا ہے مگر یہ ممکن نہیں کہ ماضی کا سفر کر کے کسی بگڑے ہوئے معاملے کو درست کرلیا جائے۔ سالِ آئندہ کی ساعتیں زندگی کے دریچوں پر دستک دے رہی ہیں اور اب یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اپنی ذاتی اور قومی فلاح و بہبود کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے 1947ء سے مماثلت رکھنے والے اس نئے برس کے تین سو پینسٹھ دنوں کو کیسے بسر کرتے ہیں۔ دعا ہے کہ پروردگار پاکستان کو امن و آشتی کا گہوارہ بنائے اور ہم سب پر اپنی رحمت نازل کرے۔ آمین
بہترین بٹ صاب۔۔۔۔ زبردست
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ حضور!
جواب دیںحذف کریں