تھل سے، جسے تھر بھی کہتے ہیں، خشک، سپاٹ علاقہ مراد ہے یعنی اس لفظ سے دور دور تک سوکھی ہموار سطح کا تصور وابستہ ہے۔ یہ دراصل ایسے بہت سے لفظوں سے جڑا ہوا ہے جن سے پیندے، سپاٹ پن، نچلے حصے اور خشکی کے معنی برآمد ہوتے ہیں۔ تلا اور تھلا اور تھالا سامنے کے لفظ ہیں۔ تھال بڑی اور چپٹی سینی کو کہتے ہیں۔ تھالی تھال کی تصغیر ہے۔ ہندی میں تال جھیل کو کہتے ہیں گویا نشیب کا تصور بھی اس سے منسلک ہے۔ پاتال سے تحت الثریٰ کا سب سے نچلا طبقہ مراد ہوتا ہے۔ اردو میں جب آپ 'جل تھل ایک ہوجانا' بولتے ہیں تو ایسی طغیانی کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جس میں دور دور تک پانی پھیلا دکھائی دیتا ہے۔ تل پٹ اور تل چھٹ کے معنی واضح ہیں۔ یونانی کے 'تھلاسا' (سمندر) اور تھل میں مماثلت ہے۔ لاطینی میں سمندر کو مارے (mare) کہتے ہیں اور یہ پنجابی کے 'مارو' سے قریب تر ہے۔ لاطینی میں زمین کے لئے tellus کا لفظ بھی ہے جو تل یا تھل سے کچھ قربت رکھتا ہے۔ زمین کے لئے لاطینی میں terra بھی مستعمل ہے جس سے خشکی اور یبوست کے معنی پیوستہ ہیں۔ یہ پنجابی کے 'تریہہ' سے ملتا جلتا ہے (اگرچہ 'تھر' اور 'ثریٰ' سے بھی میل کھاتا ہے۔ م س)
تل اپنے میں چونکہ نشیب کا تصور بھی رکھتا ہے اس لئے یہ وادی کے معنی بھی دیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ تل، تال، تھلا اور انگریزی کا dale (وادی) سب رشتے دار ہیں۔ اب سنیے کہ جرمنی میں جواخیمس تھال نامی ایک جگہ ہے۔ سولھویں صدی عیسوی میں وہاں چاندی کی کانیں تھیں۔ ان کانوں سے جو چاندی نکلتی تھی اس کا نام جواخیمس تھالر پڑگیا تھا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس نام میں تھال کا مطلب وادی ہے۔ انسانوں کی ایک نوع نینڈر تھال کہلاتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس انسان کی باقیات سب سے پہلے نینڈر تھال نامی وادی سے دستیاب ہوئی تھیں۔ قصہ مختصر، جواخیمس تھال سے ملنے والی چاندی سے جو سکے گھڑے گئے وہ جواخیمس تھالر کہلائے۔ اتنے لمبے نام زبان پر آسانی سے نہیں چڑھتے۔ لوگوں نے چاندی کے ان سکوں کو تھالر کہنا شروع کردیا۔ یہی تھالر آخر ڈالر بن گیا۔ اگر ڈالر کا شجرۂ نسب درست ہے تو پھر اس پرانے گیت میں نئے معنی تلاش کئے جاسکتے ہیں: 'آپ کھائیں تھالی میں / ہم کو دیں پیالی میں / پیالی گئی ٹوٹ / چندہ ماموں گئے روٹھ'۔ حالانکہ روٹھنا ہمیں چاہئے تھا لیکن قہرِ درویش برجانِ درویش۔ (یاد آیا کہ اسی کتاب میں خالد احمد نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ 'درویش' کا تعلق در سے نہیں یعنی جو در در پھرے بلکہ درویدن اور دروہ سے ہے یعنی وہ جس نے پیوند لگے کپڑے پہن رکھے ہوں۔) جس کالم کا نچوڑ اوپر درج ہے اس میں اور بھی باتیں ہیں لیکن کالم کو اول تا آخر پیش کرنا مدِنظر نہ تھا۔ صرف ذائقہ چکھانا مقصود تھا۔
(خالد احمد کی 'لفظوں کی کہانی، لفظوں کی زبانی' میں شامل محمد سلیم الرحمٰن کے دیباچہ سے اقتباس)
بہت اچھی تحریر
جواب دیںحذف کریںمحترم ۔ یہ میرے والی بیماری ان لوگوں کو کیوں لگ گئی ہے ؟ میں تو سکول کے زمانہ سے اس طریقہ سے لفظوں کے مطلب نکالتا رہا ہوں ۔ ایک فوری طور پر حضر کرتا ہوں ۔ کیونکہ میں ان دنوں دبئی میں ہوں اور شارجہ دبئی کے ساتھ ملتا ہے اسلئے بیان شارجہ ہی ہو جائے ۔ لفظ شارجہ اصل میں شارقہ تھا ۔ اس علاقہ کے لوگ ق کو گ بولتے ہیں ۔ اسلئے انگریزی میں شارقہ کو شارگہ لکھا یعنی جے کی بجائے جی کے ساتھ ۔ عربوں میں مصر کے لو سب سے پہلے اس علاقہ میں تعلیمی اداروں میں تعینات ہوئے ۔ مصر میں ج کو گ بولتے ہیں ۔ اسلئے اُنہوں نے شارگہ کو شارجہ بنا دیا
جواب دیںحذف کریں