کچھ دیر قبل میں کسی کام سے بازار جانے کے لئے گلی میں نکلا تو گھروں سے کوڑا کرکٹ لینے والا شخص اپنے تین چھوٹے بچوں سمیت گدھا گاڑی لیے چلا آرہا تھا۔ میں جلدی میں تھا، سو دھیان دئیے بغیر گزر گیا۔ کچھ دیر کے بعد میں واپس آیا تو دیکھا کہ ایک مکان کے باہر اس شخص کی سات آٹھ سالہ بچی بیٹھی ایک مرے ہوئے رنگین چوزے کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ اس معصوم بچی کے لئے وہ مرا ہوا رنگین چوزہ بھی ایک دلکش کھلونا تھا کہ 'مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے۔'
میں وہاں تو کچھ آگے بڑھا تو اس شخص کا بچہ ایک گھر کی گھنٹی بجا رہا تھا تاکہ وہاں سے کوڑا کرکٹ لے سکے۔ وہ لڑکا عمر میں اپنی بہن سے ایک دو برس بڑا معلوم ہوتا تھا۔ اس سے تھوڑے ہی فاصلے پر ان دونوں کا چھوٹا بھائی کوڑے کرکٹ سے بھری اس گدھا گاڑی کے ایک کونے پر قبضہ جمائے دنیا کے مصائب و آلام سے بےخبر سورہا تھا۔ نجانے کیوں مجھے اس معصوم بچے کی پُرسکون نیند کے پیچھے معاشرتی ناہمواریوں اور معاشی عدم مساوات کا پیدا کردہ ایک ایسا اضطراب اور انتشار کارفرما دکھائی دیا کہ میں اس کی تصویر بنائے بغیر نہ رہ سکا۔
تصویر بنا لینے کے بعد میں نے اپنے مکان تک جو چند قدم کا فاصلہ طے کیا اس کے دوران ابنِ انشاء کی نظم 'یہ بچہ کس کا بچہ ہے' کا یہ بند مسلسل میں ذہن کے دریچوں میں گردش کررہا تھا:
اس جگ میں سب کچھ رب کا ہے
جو رب کا ہے، وہ سب کا ہے
سب اپنے ہیں، کوئی غیر نہیں
ہر چیز میں سب کا ساجھا ہے
جو بڑھتا ہے، جو اگتا ہے
وہ دانا ہے یا میوہ ہے
جو کپڑا ہے، جو کمبل ہے
جو چاندی ہے، جو سونا ہے
وہ سارا ہے اس بچے کا
جو تیرا ہے، جو میرا ہے
یہ بچہ کس کا بچہ ہے؟
یہ بچہ سب کا بچہ ہے!
ایسے منظر اپنے چہر اسلام آباد میں بھی نظر آتے رہتے ہیں جنہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ دل اُچھل کر حلق میں پھنس گیا ہے ۔ ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ مدد کے حقدار ان لوگوں کی امداد کر کے اپنا رزق حلال کریں
جواب دیںحذف کریں