حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا علیہم السلام کی بعثت کا مقصدِ وحید عرفانِ ذاتِ لم یزل و لایموت تھا اور اس مقصد کے حصول کے لئے ان بزرگ اور برگزیدہ ترین بندگانِ خدا نے اپنی جانوں کی بھی پروا تک نہ کی۔ ان نیک، متقی اور پرہیزگار ہستیوں نے پیغام معرفت کو سعیِ پیہم اور جہدِ مسلسل سے دنیا کے کونے کونے تک پھیلا کر ظلمت کے پردوں کو چاک کیا اور انسانیت کو آفتابِ نورِ حق سے روشناس کرایا۔ ان کے مقدس وجود کے باعث نہ صرف افراد بلکہ اقوام کی زندگیاں اور تقدیریں بدل گئیں۔ ان کی صادق زبانوں سے نکلنے والا ہر ہر لفظ لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتا اور بالآخر لوگ ایمان کی دولت سے مالا مال ہونے میں ہی اپنی ذات کے لئے دائمی فلاح اورحقیقی نجات کو تلاش کرتے۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اگر آج دنیا میں کہیں انسانی اقدار، اخلاق، محبت، خلوص اور راست بازی کا وجود باقی ہے، تو اس کا سبب یہ نیک ہستیاں ہی ہیں، لہٰذا ان پاک ہستیوں کا تذکرہ کیا جانا اور ان کے حوالے سے دنوں کا منایا جانا اتنا ہی ضروری اور لازمی ہے جتنا کہ ان اقدار و روایات کا قائم رکھنا۔ یہ متقی ہستیاں اس قابل ہیں کہ ان کے اسمائے مبارکہ روپہلی قراطیس پر سنہری حروف میں لکھے جائیں تاکہ آئندہ اقوام ان صالح ہستیوں اور ان کے نیک اعمال کے بارے آگاہ ہو سکیں۔ ان ہستیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے ہر قوم اور ملت کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے کیونکہ یہ نیک ہستیاں کسی ایک ملک، قوم یا ملت نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے سرمایۂ عزت و افتخار ہیں۔
گذشتہ دنوں وطنِ عزیز میں نبی آخرالزماں، پیغمبرِ ذیشاں، ہمدردِ غمزدگاں، شافعِ مذنباں، سیدِ صادقاں، سردارِ پرہیزگاراں، قرارِ قلب و جاں حضرت محمد ﷺ کا میلادِ مبارک نہایت عقیدت و احترام، محبت، ذوق و شوق اور ”دھوم دھام“ سے منایا گیا۔ اس دن کے منائے جانے پر شاید کسی کو بھی کوئی عذر یا اعتراض نہ ہوگا۔ تاہم اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کچھ لوگوں کو اس کے منائے جانے کے طریق کار پر اعتراض ہے اوراس میں وہ کسی حد تک حق بجانب بھی ہیں۔ اس کی ایک بیّن وجہ اسلام کا وضع کردہ طرزِ زندگی ہے، جس میں اس طرح کے کسی بھی دن کے منائے جانے کی اجازت نہیں دی گئی، جو غیر مسلموں کے کسی تہوار سے مشابہت و مماثلت رکھتا ہو۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس بابرکت اور باسعادت دن کو مناتے ہوئے بھی ہم میں سے بہت سے لوگ ایسی حرکات و سکنات کے مرتکب ہوتے ہیں جو کہ قطعاً غیر اسلامی ہیں۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلامی طرزِ حیات کے برخلاف کسی فعل کا کیا جانا نبیِ محتشم ﷺ سے محبت کا اظہار مطلق نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بحیثیتِ مسلمان کوئی بھی شخص کسی بھی ایسے فعل کا ارتکاب کرنا کبھی بھی گوارا نہیں کرے گا، جس سے اسے نبیِ رحمت ﷺ کی حمایت و تائید کی بجائے آپ ﷺ کی مخالفت و ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے۔ بعض اوقات ہم انجانے میں اور بغیر کسی ارادے کے ایسے افعال کر بیٹھتے ہیں، جن سے ہمیں اپنی محبوب ہستی کی رنجیدگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری حتیٰ المقدور کوشش یہ ہونا چاہئے کہ ہم کسی بھی کام کے کرنے سے قبل یہ دیکھ لیں کہ آیا وہ ہستی جس سے ہمارا تعلق ہے یا جس کی خوشنودی کے لئے ہم اس کام کو کرنے جارہے ہیں، اسے اس کام سے خوشی بھی ہوگی یا نہیں؟
ہمارے یہاں آج کل جو کچھ میلادِ نبی ﷺ کے نام پر کیا جارہا ہے، اسے کوئی بھی ہوش مند، ذی خرد اور باشعور انسان کسی بھی طور اسلامی اقدار و روایات کے پیش نظر عملِ صالح کا نام نہیں دے سکتا۔ حیف صد حیف کہ اب ہم میلادِ پیمبر اعظم ﷺ کو بھی بسنت نائٹ، جشنِ بہاراں، ویلنٹائن ڈے اور دیگر غیر اسلامی و غیر اخلاقی تہواروں کے رنگ میں رنگنے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں۔ 12 ربیع الاول کے اگلے روز ایک قومی روزنامہ میں ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا ڈالتے ”مسلمان“ نوجوانوں کو دیکھ کر اس قدر رنج و ملال ہوا کہ جس کا الفاظ میں بیان کرنا غیرممکن محسوس ہوتا ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایک طرف تو ہمارے ملک میں ہزاروں کی تعداد میں ایسی بہنیں، بچیاں اور بیٹیاں موجود ہیں جنہیں تن ڈھانپنے کے لئے پورے کپڑے تک میسر نہیں اور دوسری طرف ”سرکار کی آمد مرحبا، دلدار کی آمد مرحبا“ کے نعروں والے لاکھوں جھنڈے اور بینر گلیوں، محلوں اور سڑکوں پر لہرا رہے ہوتے ہیں۔ حیرت ہے کہ عاشقانِ رسولؐ کے ہوتے ہوئے اس ملک پر امریکہ نواز، مغرب پرست، اسلام دشمن اور پاکستان مخالف لوگ ایوان ہائے اقتدار و اختیار میں بیٹھے حکمرانی کررہے ہیں۔ اسی پر بس نہیں یہ روشن خیال اور ماڈریٹ ٹولہ امریکہ کے طرف سے موصول ہونے والے ہر حکم پر سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے اسے فوراً بامِ تکمیل سے ہمکنار کرانا اپنا فرضِ جانتا ہے۔ یہ نہایت شرم کی بات ہے کہ اس کے باوجود ہم میں سے ہر ایک خود کو دھڑلے سے پکا مسلمان اورسچا عاشقِ رسولؐ کہتا ہے۔
اسلامی عقائد و نظریات کے مطابق چونکہ نبی پاک ﷺ کو سردار الانبیا اور سیدالبشر مانا جاتا ہے، لہٰذا آنحضرت ﷺ کے حوالے سے ایک دن کا مخصوص کیا جانا اور اس کا منایا جانا ایک احسن امر ہے لیکن نبی مکرم ﷺ نے چونکہ اپنی پوری زندگی قواعد و ضوابط کے مطابق گزاری ہے چنانچہ اس دن کو منائے جانے کے بھی کچھ اصول ہونا چاہئیں اور اس دن کو ان اصولوں کے مطابق ہی گزارا جانا چاہئے۔ اس دن کو ایک تہوار کے طور پر منائے جانے سے کہیں بہتر اور افضل ہوگا کہ ہم اس دن کو تحدیثِ نعمتِ ربانی، شکرِ ایزدی اور تجدیدِ عہد ِ مسلمانی کے طور پر منائیں تاکہ اس دن کا ایک واضح مقصد دنیا کے سامنے آسکے۔ اگر ہم اس دن کو واقعی منانا چاہتے ہیں تو ہم سب پر یہ فرض ہے کہ ہم اس دن کو اس طرح سے منائیں کہ اس پورے دن میں اللہ رب العزت کی رضا اور نبی پاک ﷺ کی سنت کے خلاف کوئی عمل نہ کریں اور دن کے اختتام پر خدائے بزرگوار کے حضور سربسجود ہو کر اپنے سابقہ گناہوں کی معافی طلب کریں اور یہ عہد کریں کہ آئندہ اپنی پوری زندگی میں منشائے مالک الملک اورسننِ محمدیؐ کے خلافکبھی بھی کوئی بھی کام نہیں کریں گے۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہیں، تو پھر اس دن کو مروجہ طریقوں سے منا کر اللہ خالق و صانعِ ارض و سماوات اور اس کے محبوب نبی ﷺ کے خلاف چلنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔
پس نوشت: ہمارا یہ مضمون آج سے نو برس قبل ایک قومی روزنامہ میں شائع ہوا تھا۔ افسوس کہ تقریباً ایک عشرے کے بعد حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید بگڑ گئے ہیں۔ ہم اپنے آئندہ مضمون میں اس مزید بگڑی ہوئی صورتحال پر بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
افسوس ناک امر ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ سیکولر ازم اور جاہل طبقات غیر اسلامی رسومات کو اپنا اپنا درست "اسلام" سمجھ کر واللہ علم کون سے دونوں جہانوں میں سرخرو ہونے کیلئے کوشاں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا جانے زمانہ کون سی ارتقائی منازل طے کرتا ہوا کہاں جا رہا ہے
جواب دیںحذف کریں