معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر محمد اجمل ایک جگہ لکھتے ہیں کہ "جبر کے نتیجے میں نفرت پیدا ہوتی ہے؛ دوسروں سے نفرت، اپنے آپ سے نفرت۔" گزشتہ روز لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں جبر کی دو مختلف صورتیں دکھائی دیں۔ پہلی صورت میں دو گرجا گھر خودکش حملوں کا نشانہ بنے اور بھاری جانی اور مالی نقصان ہوا۔ دوسری صورت اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہے جس میں حملوں کے بعد مشتعل ہجوم نے دو نوجوانوں کو پکڑ کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر انہیں جلا ڈالا۔ واقعے کی رپورٹنگ کرنے والے ایک دوست سے صبح سویرے رابطہ ہوا تو انہوں نے بتایا کہ مشتعل افراد شام تک لاشوں کی بےحرمتی کرتے رہے اور ان پر ٹائر پھینک کر آگ کو مزید بھڑکاتے رہے۔
اس انتہائی دلخراش واقعے کے بارے میں کچھ بھی لکھنا بہت دشوار ہے۔ میں گزشتہ پوری رات جاگتا رہا اور آج صبح کالج جاتے ہوئے اور واپسی پر بھی دھیان مسلسل ان دو نوجوانوں کی طرف رہا جو انسانوں کے روپ میں چھپے ان وحشیوں اور درندوں کی بربریت کا نشانہ بنے۔ کالج سے واپس آتے ہوئے دیکھا کہ بند روڈ (رِنگ روڈ) پر مشتعل مظاہرین نے سڑک کو ساندہ اور موٹروے چوک میں بلاک کررکھا تھا۔ یہ سڑک چونکہ شہر کی مصروف ترین شاہراہوں میں سے ایک ہے اور لاہور کو دوسرے شہروں سے جوڑنے کا وسیلہ بنتی ہے، لہٰذا مسافروں کی بڑی تعداد جن میں کافی زیادہ عورتیں، بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے سامان اٹھائے سڑک پر ذلیل و خوار ہورہی تھی۔ مظاہرین کی زیادہ تعداد کم عمر اور نوجوان لڑکوں پر مشتمل تھی جو راہگیروں سے بدتمیزی کرتے اور لڑتے جھگڑتے ہوئے انہیں سڑک استعمال کرنے سے روک رہے تھے۔
بند روڈ سے ملحقہ اکا دکا بستیاں عیسائیوں کی ہیں جبکہ باقی علاقے مسلمانوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ دریائے راوی کے قریب کے علاقوں میں پٹھان آبادی کی زیادہ تعداد ہے جن میں افغان آباد کار بھی قابل ذکر تعداد میں موجود ہیں۔ مشتعل مظاہرین جو کچھ کررہے تھے اگر اس کے جواب میں مسلمان بھی بھڑک جاتے تو شاید مظاہرین کو ان علاقوں میں کہیں چھپنے کی جگہ بھی نہ مل پاتی۔ اس صورتحال میں پولیس یا کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے لیے فوری طور پر اقلیتی مظاہرین کی کوئی مدد کرپانا بھی ممکن نہ ہوتا۔
گرجا گھروں پر ہونے والے خودکش حملے انتہائی قابل مذمت ہیں لیکن ان کے بعد عیسائی مظاہرین نے جس طرح سے دو نوجوانوں کو زندہ جلایا اور جیسے احتجاج کیا ہے اس سے مسلم اکثریت کے دلوں میں ان کے لیے ہمدردی کے جذبات ماند پڑگئے ہیں۔ مشتعل مظاہرین نے جبر کے بیج ڈال کر نفرت کی فصل بوئی ہے۔ ان خودکش حملوں کے منصوبہ ساز تو پتہ نہیں حکومت کے ہتھے کبھی چڑھیں گے یا نہیں، اور پکڑے بھی گئے تو پتہ نہیں وہ کیفر کردار تک پہنچیں گے یا نہیں، لیکن ایک بات تو صاف دکھائی دے رہی ہے کہ دو نوجوانوں کو وحشیانہ تشدد کے بعد زندہ جلا ڈالنا آنے والے دنوں میں بالعموم لاہور اور بالخصوص یوحنا آباد کے عیسائیوں کو بہت مہنگا پڑسکتا ہے۔
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔