روزنامہ 'ڈان' ایک وقت تک پاکستان کے معتبر ترین جرائد میں شمار ہوتا تھا۔ اس اخبار کی باقاعدہ اشاعت کو سات دہائیوں سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور پاکستان میں اپنی زریں صحافت کے حوالے سے یہ اخبار ایک روشن تاریخ کا حامل رہا ہے۔ مرکز کی بائیں جانب جھکاؤ رکھنے کے باعث ماضی میں اس اخبار کو کچھ سختیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مجھے اس اخبار کو پڑھتے ہوئے تقریباً ڈیڑھ دہائی گزر چکی ہے اور اسی ڈیڑھ دہائی کے دوران اس اخبار کے ادارتی پالیسی اور دیگر معاملات میں اتنی تبدیلی آئی ہے کہ گزشتہ ساڑھے پانچ چھے دہائیوں میں مجموعی طور پر اتنی تبدیلی نہیں آئی ہوگی۔
ایک عرصے تک انتہائی قابل اعتبار حیثیت رکھنے والا یہ اخبار اب ایسی حرکتوں پر اتر آیا ہے کہ کبھی کبھار اردو کے تیسرے چوتھے درجے کے اخبارات کو بھی مات دے جاتا ہے۔ میں اس اخبار کی شائع کردہ مختلف خبروں اور مضامین کے حوالے سے بہت کچھ لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن سردست مجھے صرف اس خبر کے حوالے سے بات کرنی ہے جو آج اخبار کی ویب سائٹ پر شائع ہوئی ہے اور کل پرنٹ کی شکل میں لوگوں کو پڑھنے کو ملے گی۔
خبر کی سرخی ہے کہ "بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی نے بریلوی مسجد بند کردی۔" خبر کی تفصیل میں لکھا ہے کہ یونیورسٹی کے داخلہ گیٹ کے قریب واقع ایک مسجد کو سیکیورٹی خدشات کی بنا پر بند کردیا گیا ہے۔ یہ مسجد چند عشرے قبل مقامی لوگوں نے تعمیر کی تھی، تاہم 2000ء میں جب وہ لوگ سی ڈی اے سے معاوضہ لے کر اپنی زمینیں بیچ گئے تو مسجد غیرآباد ہوگئی تھی۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی مرکزی مسجد میں خطبۂ جمعہ چونکہ عربی زبان میں ہوتا ہے، لہٰذا طلبہ نے اردو خطبے کے اہتمام کی خاطر 2008ء میں مذکورہ مسجد کی مرمت کروا کر اس میں نماز ادا کرنا شروع کردی۔ یونیورسٹی انتظامیہ کو کبھی بھی اس مسجد کی بحالی پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں رہا لیکن سانحۂ پشاور کے بعد سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر مسجد کو بند کردیا گیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے اس فیصلے کے خلاف طلبہ نے عدالت سے رخ کیا اور رواں ماہ کی 24 تاریخ کو مقدمے کی سماعت ہوگی۔
مذکورہ مسجد کی مرمت کروا کر اس میں گزشتہ سات برس سے نماز ادا کرنے والے طلبہ نے اخبار سے بات کرتے ہوئے کوئی مسلکی حوالہ نہیں دیا، یونیورسٹی کے ترجمان نے اپنے بیان میں کسی مسلک کی حمایت یا مخالفت کی بات نہیں کی لیکن اس کے باوجود 'ڈان' نے سرخی سمیت اپنی خبر میں چھے بار بریلوی مکتبۂ فکر کا حوالہ دیا ہے۔ اخبار میں خبر دینے والے رپورٹر اور خبر کو شائع کرنے والے ایڈیٹر سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ جب فریقین کسی مسلک کا ذکر نہیں کررہے تو آپ کس بنیاد پر بار بار مسلکی حوالے کو درمیان میں لارہے ہیں؟
دنیا بھر میں مثبت اور متوازن صحافت کے لیے کچھ معیارات مقرر ہیں اور ان معیارات کی خلاف ورزی کو کسی بھی طور اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اسی طرح پوری دنیا میں مخصوص صحافتی رویوں کے حوالے سے زرد صحافت کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے اور ان رویوں کو سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ 'ڈان' کی یہ خبر مثبت اور متوازن صحافت کے معیارات اور اصولوں کے مطابق تو ہرگز نہیں ہے، البتہ زرد صحافت کے تناظر میں اس کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال واضح ہوجاتی ہے۔ یہاں یہ نکتہ ضرور غور طلب ہے کہ 'ڈان' آخر کس کے ایما پر ایسی خبریں چھاپ کر پاکستانی معاشرے میں فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے! مذکورہ خبر پڑھتے ہوئے مجھے جانثار اختر کا یہ شعر شدت سے یاد آرہا تھا کہ
واقعہ کل تو کوئی شہر میں ایسا نہ ہوا
یہ تو اخبار کے دفتر کی خبر لگتی ہے
آپ کا خیال بالکل درست ہے ۔ ہمارے مُلک کی صحافت ارادتاً یا غیر ارادی طور پر زیادہ تر مُلک و قوم کی دُشمنی پر عمل پیرا ہے ۔ طالبان سے لال مسجد سے شیعہ سُنی فساد سے دیو بند بریلوی فساد تک سب پر تحقیق کر کے دیکھ لیجئے ۔ بنیادی سبب اخبارات اور ٹی وی چینلز کی ہرزہ سرائی ہی ہو گی ۔ 2007ء میں جب سی ڈی اے نے قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جامعہ حفہ کی عمارت کو گرانے کا نوٹس دیا تھا تو جامعہ حفصہ کی طالبات ڈنڈے اُٹھا کر دو تین گھنٹے کیلئے جامعہ حفصہ کا حار کر کے کھڑی ہوئی تھیں ۔ لائبریی ساتھ ہی ہونے کی وجہ سے حصار میں آ گئی تھی ۔ اس کی وڈیو کو جس طرح تمام ٹی وی چینلز پر سارا سارا دن کئی ماہ تک دکھایا گیا اور جس بے شرمی کے ساتھ جھوٹ بولا گیا اُس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملے گی
جواب دیںحذف کریںVery nice to raise such issues
جواب دیںحذف کریں