بعض اوقات کسی کا کہا ہوا ایک جملہ ہی ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے اور ہم ایسی بہت سے باتیں سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جن پر ہم عام حالات میں توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ میرے ساتھ بھی کل کچھ ایسا ہی ہوا۔ سڑکوں پر آتے جاتے آپ کی طرح مجھے بھی ایسے بہت سے لوگ ملتے ہیں جو کچھ چھوٹی موٹی چیزیں بیچ رہے ہوتے ہیں یا جو اپنی کسی ضرورت کی بنیاد پر کچھ امداد طلب کررہے ہوتے ہیں۔ اسے میری ذہنی خرابی سمجھ لیجئے کہ میں عام حالات میں فقیروں کو پیسے دینے کی بجائے معذرت کرلیتا ہوں، اور خاص طور پر چھوٹے بچوں کو پیسے دینے سے گریز کرتا ہوں، کیونکہ میں معاشرے میں بھیک مانگنے کے کلچر کو فروغ نہیں دینا چاہتا۔ تاہم اگر کوئی شخص کھانا کھانا چاہے تو اس سلسلے میں ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
خیر، بات ہورہی تھی اس واقعے کی جو کل میرے ساتھ پیش آیا۔ ہوا کچھ یوں کہ میں کسی جگہ سے واپس آرہا تھا کہ کیمپس پُل پر اشارہ بند ہونے کی وجہ سے رکنا پڑا۔ میں ٹھہرا تو ایک بزرگ ہاتھ میں کچھ اخبارات لیے میری طرف آئے اور کہنے لگے، "پتر، ایہہ اخبار لے لے! (بیٹا، یہ اخبار لے لو!)" میں نے غیرارادی طور پر کہہ دیا، "بابا جی، مینوں لوڑ نئیں۔ (بابا جی، مجھے ضرورت نہیں ہے۔)" بزرگ نے جواب میں کہا، "تینوں نئیں، مینوں لوڑ اے۔ ایہناں پیسیاں نال میرے بال روٹی کھا لین گے۔ (تمہیں نہیں، مجھے ضرورت ہے۔ ان پیسوں سے میرے بچے روٹی کھا لیں گے۔)" میرے لیے یہ جواب غیرمتوقع تھا۔ فوری ردعمل کے طور پر میں نے جیب سے کچھ روپے نکال کر بزرگ کو تھما دیئے اور ایک اخبار لے کر چل پڑا کہ اشارہ کھل چکا تھا۔
وہاں سے چلنے کے بعد کیمپس سے گھر تک کے رستے میں میں یہی سوچتا رہا کہ ہم روز سڑک پر کتنے لوگوں کو معمولی رقم کے عوض خریدی جاسکنے والی چیزوں کے بارے میں یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ ہمیں ان کی ضرورت نہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اگر یہ چھوٹی موٹی اشیا بکیں گی نہیں تو وہ لوگ گزارہ کیسے کریں گے، اور اگر کسی شے یا خدمت کے عوض انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا تو پھر دو ہی صورتیں رہ جائیں گی کہ یا تو ناتوانی کی حالت میں وہ ہاتھ لوگوں کے آگے پھیلے گا اور یا قوی ہونے کی صورت میں وہ دوسروں پر اٹھے گا!
وہاں سے چلنے کے بعد کیمپس سے گھر تک کے رستے میں میں یہی سوچتا رہا کہ ہم روز سڑک پر کتنے لوگوں کو معمولی رقم کے عوض خریدی جاسکنے والی چیزوں کے بارے میں یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ ہمیں ان کی ضرورت نہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اگر یہ چھوٹی موٹی اشیا بکیں گی نہیں تو وہ لوگ گزارہ کیسے کریں گے، اور اگر کسی شے یا خدمت کے عوض انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا تو پھر دو ہی صورتیں رہ جائیں گی کہ یا تو ناتوانی کی حالت میں وہ ہاتھ لوگوں کے آگے پھیلے گا اور یا قوی ہونے کی صورت میں وہ دوسروں پر اٹھے گا!
مجھے وہ شخص نہیں بھولتا جس نے دروازے پر آ کر روٰٹی مانگی ۔ اُس وقت نہ روٹی تھی نہ سالن ۔ میں نے پیسے دینے کی کوشش کی اور بتایا کہ قریب ہی ایک ہوٹل ہے وہاں س اتنے میں کھانا مل جائے گا لیکن اُس نے کاہ ” نہیں بابا ۔ مجھے پیسے نہیں روٹی چاہیئے ۔ بے شک دو دن پرانی لے آؤ ۔ میں کھا لوں گا“۔ اتفاق سے گوندا آٹا ایک روٹی کا تھا سو پکوا دی ۔ اُس دن گھر میں انڈے یا اچار بھی ختم تھا ۔ پھر میں نے پیسے دینا چاہے کہ سالن ہوٹل سے لے لے لیکن اُس نے انکار کر دیا ۔ پڑوسی کا نوکر سُن رہا تھا وہ بھاگ کر اچار لے آیا ۔ اُس شخص نے کھا کر دعا دی اور یہ کہتا ہوا چلا گیا ” دو دن کا بھوکا تھا ۔ پیٹ بھر گیا“۔
جواب دیںحذف کریں