محمد رمضان لاہور کے نواح میں واقع شرقپور نامی قصبے سے منسلک ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا ہے۔ وہ گزشتہ تقریباً تیس برس سے سرکاری ملازمت کررہا ہے۔ چھے بچوں سمیت اس کے گھر میں کل نو افراد رہتے ہیں جن کی کفالت کی ذمہ داری اس پر ہے۔ سرکاری ملازمت سے ملنے والی ماہانہ بیس ہزار روپے تنخواہ کے علاوہ اپنے گھر کو چلانے کے لیے اس کے پاس موروثی طور پر ملنے والا تقریباً دو ایکڑ کا ایک قطعۂ زمین بھی ہے جس پر وہ اناج وغیرہ کاشت کرتا ہے۔
رمضان نے میٹرک کے امتحانات میں کامیاب ہونے کے بعد جب سرکاری ملازمت شروع کی تو اس وقت اس کی عمر تقریباً اٹھارہ برس تھی۔ ملازمت کے دوران ہی اس نے انٹرمیڈیٹ پاس کیا۔ پھر کوشش کی کہ کسی طرح بی اے بھی کر لے لیکن گھریلو حالات کی سختی نے اسے اس بات کی اجازت نہ دی۔ اس نے کلرک بھرتی ہونے کی بھی کوشش کی مگر سفارش اور رشوت کے بغیر یہ بھی ممکن نہ ہوسکا۔ سو، سرکاری ملازمت میں تین دہائیاں گزارنے کے بعد بھی وہ درجۂ چہارم کا ایک ملازم ہے جس کا کام دوسروں کے حکم پر چائے بنانا اور پانی پلانا وغیرہ ہے۔
رمضان کے مطابق اس کے گھر کے راشن اور یوٹیلٹی بِلوں پر ہی اتنی رقم خرچ ہوتی ہے کہ بعض اوقات اس کی تنخواہ کم پڑجاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں اسے اپنے ان دوستوں یا عزیزوں سے قرض لینے کے لیے رجوع کرنا پڑتا ہے جن کے حالات رمضان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک ڈیڑھ ہفتے کے لیے وہ اپنی ضروریات کو جان و تن کا رشتہ برقرار رکھنے کی حد تک لے جائے تاکہ مہینہ پورا کیا جاسکے۔
رمضان یوں سسک سسک کر زندگی گزارنے والا پہلا یا آخری پاکستانی نہیں ہے۔ اس جیسے لاکھوں بلکہ کروڑوں پاکستانی اسی جیسے حالات کے تحت زندگی گزار رہے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ زندگی انہیں گزار رہی ہے۔ راشن، یوٹیلٹی بل، بچوں کی فیس، علاج معالجے کا خرچ اور دیگر بہت سے اخراجات عام آدمی کی آمدن کو کسی عفریت کی طرح یوں نگل جاتے ہیں کہ گویا وہ کبھی تھی ہی نہیں۔
عوامی حمایت سے ایوان ہائے اقتدار پہنچنے والے سیاستدان انتخابات کے موقع پر جب جھولی پھیلا کر در در جاتے ہیں، اس وقت وہ وعدے تو بہت سے کرتے ہیں لیکن یہ وعدے کبھی بھی ایفا نہیں ہوتے۔ پاکستان کے تناظر میں افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری طریقے سے منتخب ہو کر پارلیمان تک پہنچنے والے سیاستدان بھی آمر ہی ہوتے ہیں اور ان کا طرزِ حکمرانی بھی آمروں جیسا ہی ہوتا ہے۔
اگر عوامی لوگ ہونے کے دعویدار پاکستانی سیاستدان واقعی عوام کے دکھ درد کا علاج کرنا چاہیں تو ایسے کئی چھوٹے چھوٹے اقدامات ہیں جن کے عوامی زندگی پر بہت گہرے اور بڑے اثرات پڑ سکتے ہیں۔ اس حوالے سے جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی شرح میں کمی لانا ہی ایک ایسا چھوٹا سا اقدام ہوسکتا ہے جس سے مہنگائی جیسے اہم ترین مسئلے کو حل کرنے کے لیے بہت زیادہ مدد مل سکتی ہے۔
اس وقت پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کے سوا باقی تمام اشیا پر جی ایس ٹی کی شرح 17 فیصد ہے۔ 2007ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت قائم ہونے سے پہلے تک یہی شرح 15 فیصد ہوا کرتی تھی۔ پی پی پی نے اس شرح کو ایک فیصد بڑھا کا 16 فیصد تک پہنچایا اور اس کے بعد پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے اس شرح میں مزید ایک فیصد اضافہ کرتے ہوئے اسے 17 فیصد کردیا۔ بازار میں بکنے والی ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز پر یہ ٹیکس عائد ہے جس کی وجہ سے 2 فیصد کے فرق سے چیزوں کی قیمتیں کہیں سے کہیں پہنچ چکی ہیں۔ 2 اضافہ کا اثر جانچنے کے لیے بھارت کی مثال دیکھ لیجئے جہاں 2007ء سے پہلے جی ایس ٹی کی شرح 12.50 فیصد تھی لیکن اسے عوام پر بوجھ سمجھتے ہوئے 12.36 فیصد کردیا گیا۔ 0.14 فیصد کمی ویسے تو کچھ بھی نہیں لیکن اس کا مجموعی اثر یقیناً قابلِ ذکر حد تک ہوگا۔
بھارت کی طرح پاکستان میں بھی چونکہ اسی فیصد سے زائد لوگ متوسط اور زیریں متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، لہٰذا جی ایس ٹی سے حاصل ہونے والی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ بھی وہی لوگ ہیں حالانکہ آمدن کے اعتبار دیکھا جائے تو ان کا اعلیٰ اور بالائی متوسط طبقے سے کوئی مقابلہ ہی نہیں بنتا۔ حکومت کو چاہیے کہ ٹیکس کے حصول کے دیگر ذرائع کو فعال بنائے اور زندگی کی دوڑ میں پہلے ہی تھکے ہارے لوگوں پر بوجھ ڈالنے کی بجائے ان کے مسائل میں کمی کا چارہ کرے تاکہ رمضان جیسے لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں میں کم از کم زندہ ہونے کا احساس تو پیدا ہوسکے۔
بھارت کی طرح پاکستان میں بھی چونکہ اسی فیصد سے زائد لوگ متوسط اور زیریں متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، لہٰذا جی ایس ٹی سے حاصل ہونے والی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ بھی وہی لوگ ہیں حالانکہ آمدن کے اعتبار دیکھا جائے تو ان کا اعلیٰ اور بالائی متوسط طبقے سے کوئی مقابلہ ہی نہیں بنتا۔ حکومت کو چاہیے کہ ٹیکس کے حصول کے دیگر ذرائع کو فعال بنائے اور زندگی کی دوڑ میں پہلے ہی تھکے ہارے لوگوں پر بوجھ ڈالنے کی بجائے ان کے مسائل میں کمی کا چارہ کرے تاکہ رمضان جیسے لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں میں کم از کم زندہ ہونے کا احساس تو پیدا ہوسکے۔
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔