تازہ ترین
کام جاری ہے...
اتوار، 26 اپریل، 2015

مطالعہ: ایک اکسیرِ اعظم


کسی مضمون میں حقیقی دلچسپی بہترین استاد ہے۔ یہ تصور اس چینی کہاوت کا عکاس ہے کہ ”علم کے حوالے سے جو لوگ اسے سیکھنے کے لیے پُرعزم ہوتے ہیں وہ ان لوگوں سے بہتر ہوتے ہیں جو اس سے واقف ہوتے ہیں، اور جو اس سے سب سے زیادہ محظوظ ہوتے ہیں وہ بہترین طالبعلم ہوتے ہیں۔“ اہم عہدیداروں کو مطالعے کو ایک کھوج، ایک مشغلے اور صحت مند زندگی کے ایک عنصر کے طور پر اپنانا چاہیے، جو انہیں خوش اور سیکھنے کے لیے زیادہ مشتاق بنائے گا۔ مطالعے میں گہری دلچسپی کے ساتھ ہم جبری بھرتی کیے ہوئے فوجیوں کی بجائے پُرجوش رضاکار بنیں گے، اور مطالعہ ہمارے لیے ایک زندگی بھر ساتھ چلنے والی عادت ہوگی، نہ کہ ایک وقت گزاری کا مشغلہ۔

مطالعے اور عمل کی طرح مطالعہ اور سوچ بچار بھی مل کر ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہیں۔ ایک اور چینی کہاوت ہے کہ ”سوچ بچار کے بغیر کیا گیا مطالعہ انسان کو مبہم بناتا ہے جبکہ مطالعے کے بغیر سوچ بچار سے انسان وہمی بن جاتا ہے۔“ اگر آپ کے ذہن میں مسائل ہیں اور آپ ان کا حل ڈھونڈنا چاہتے ہیں تو آپ کو مطالعہ شروع کرنا چاہیے اور دلجمعی سے مطالعہ کرنا چاہیے۔ آپ کو ”بہت زیادہ سیکھنا چاہیے، توجہ سے کھوج کرنی چاہیے، گہرائی کے ساتھ سوچنا چاہیے، مختلف چیزوں میں وضاحت کے ساتھ تمیز کرنی چاہیے اور اخلاص کے ساتھ عمل کرنا چاہیے۔“

ہمیں مطالعے کے لیے وقت نکالنے میں ماہر ہونا چاہیے۔ میں اکثر عہدیداروں کو یہ کہتے سنتا ہوں کہ ہم مزید مطالعہ کرنا چاہتے ہیں لیکن ”کام میں مصروف ہونے کی وجہ سے انہیں وقت ہی نہیں مل پاتا۔“ یہ بات ظاہری طور پر قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے، لیکن یہ کبھی بھی مطالعے میں سست پڑنے کا جواز نہیں ہوسکتی۔ ہمارے کام کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے تجویز دی تھی کہ ہمیں سوچنے اور پڑھنے میں زیادہ وقت صرف کرنا چاہیے، اور بے معنی دعوتوں اور رسموں کو کم کرنا چاہیے۔

ان دنوں یہ عوام کا ایک عمومی شکوہ ہے کہ بعض عہدیدار پڑھنے میں کم اور دعوتوں میں زیادہ وقت لگاتے ہیں۔ ”جو خود اندھیرے میں ہیں وہ دوسروں کے لیے رستہ کیا روشن کریں گے۔“ اس سے ہمارے کام پر منفی اثر پڑے گا اور بالآخر ہماری مجموعی ترقی میں رکاوٹ پڑے گی۔ اگر ہم اپنے مطالعے کا نقصان کرتے ہوئے خود کو اپنے کاموں میں مگن کرلیں تو ہم ذہنی طور پر سختی اور لغویت کا شکار ہوجائیں گے۔ جب ہم مطالعہ کررہے ہوں تو ہمیں پوری توجہ اس پر لگانی چاہیے اور توجہ نہیں بٹنے دینی چاہیے۔ ہمارے اندازِ فکر کو مستقل ہونا چاہیے اور اسے عطائیوں جیسا نہیں ہونا چاہیے۔ بغیر تفہیم کے سطحی طور پر پڑھنے کی بجائے ہم جو کچھ پڑھ رہے ہیں اسے اچھی طرح سمجھنا چاہیے۔ اہم عہدیداروں کو مستقل مزاجی کے ساتھ سیکھنے اور پڑھنے کو ترجیح دینی چاہیے۔ جب ہم اس بات کو خود پر لاگو کریں گے تو ایک دن کے دوران آدھے گھنٹے میں پڑھے جانے والے چند صفحات بھی وقت کا اچھا استعمال ہوں گے۔

(چینی صدر ژی جن پنگ کی کتاب ”چین کا نظامِ حکومت“ سے اقتباس)

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں