تازہ ترین
کام جاری ہے...
بدھ، 1 جنوری، 2014

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی


10 ستمبر 2013ء کی بات ہے۔ ہم بعد از دوپہر کسی کام سے پریس کلب جانے کے لئے گھر سے نکلے تو رستے میں نہر کے پل والے اشارے پر پہنچ کر ہم نے دیکھا کہ ایک بزرگ گدھا گاڑی لیے کھڑے ہیں۔ انہوں نے گدھا گاڑی پر لکڑیوں کے گٹھے لاد رکھے تھے جو رسی کے کھلنے کی وجہ سے زمین پر گر پڑے تھے۔ لوگ قریب سے گزر رہے تھے مگر کوئی مدد کے لئے رکا نہیں۔ پہلے تو ہم بھی ان کے قریب سے گزر گئے مگر چند قدم ہی آگے گئے تھے کہ ضمیر نے لعنت ملامت شروع کردی کہ ایک بزرگ کو مدد درکار ہے اور تم ہو کہ دیکھتے بھالتے یوں انجان بن کر چلے پڑے ہو۔ اس احساس کا پیدا ہونا تھا کہ ہم نے موٹرسائیکل کا رخ موڑا اور چند ہی ثانیوں میں ان بزرگ کی مدد کرنے کے لئے ان کے پاس پہنچ گئے۔ ہم جا کر موٹرسائیکل کھڑی کر کے ابھی ان بزرگ کی طرف بڑھے ہی تھے کہ پیچھے سے ایک نجی کالج کے وردی میں ملبوس سات آٹھ طلبہ بھی ہاتھ بٹانے کے لئے آگئے۔ یہ سب دیکھ کر قریب سے گزرتا ہوا ایک نوجوان بھی اپنی موٹرسائیکل ایک طرف کھڑی کر کے اس عمل میں ہمارے ساتھ شریک ہوگیا۔

لکڑیاں بہت بھاری تھیں اور ہم دو دو افراد مل کر ایک ایک گٹھے کو اٹھا رہے تھے۔ کچھ ہی منٹوں میں وہ سب لکڑیاں دوبارہ گدھا گاڑی پر لاد دی گئیں اور پھر رسی اس احتیاط کے ساتھ باندھی گئی کہ ان بزرگ کو اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے دوبارہ کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
٭٭٭٭٭

اسی طرح چند روز پہلے ہم نے ایک سڑک پر گزرتے ہوئے ایک رکشہ دیکھا جس کے پیچھے لکھا ہوا تھا کہ یہ رکشہ فلاں فلاں علاقے میں رات 12 بجے سے صبح 5 بجے تک ایمبولینس کے طور پر مفت دستیاب ہے۔ نیچے ڈرائیور کا نام اور فون نمبر درج تھا۔
٭٭٭٭٭
 
کہنے کو تو یہ دونوں باتیں انتہائی معمولی سی ہیں اور اس طرح کے کئی واقعات آپ نے بھی اپنی روزمرہ زندگی میں دیکھے ہوں گے مگر ہم ان باتوں کو محض معمولی باتیں نہیں سمجھتے بلکہ ان کو معاشرتی بےحسی کی راکھ میں چھپی ہوئی حساس چنگاریوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے اور ملک کے بارے میں اکثر منفی باتوں کو ہی فروغ دیا جاتا اور ذرائع ابلاغ میں تو خاص طور پر چن چن کر ایسے واقعات کی تشہیر کی جاتی ہے جن سے ملک کی بدنامی میں اضافہ ہوتا ہے۔ آئے روز ہونے والے چشم کشا انکشافات کے باعث اب عام آدمی بھی اس بات سے بہت حد تک واقف ہوچکا ہے کہ ذرائع ابلاغ ایسا کس کے اشارے پر اور کیوں کرتے ہیں۔

اوپر بیان کی جانے والی دونوں باتوں میں جو چیز واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے وہ جذبۂ ایثار اور انسانی ہمدردی ہے۔ ہم اور ہمارے ساتھ ان بزرگ کا ہاتھ بٹانے والے نوجوان اس بات سے واقف نہیں تھے کہ ہم جس کی مدد کررہے ہیں اس کی نسل، مذہب یا عقیدہ کیا ہے اور نہ ہی اس رکشہ ڈرائیور کو اس بات سے کوئی سروکار ہے کہ اس سے رات گئے مدد مانگنے والا کس رنگ و نسل و مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔

یہ دونوں باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ہمارے لوگ جذبات و احساسات سے ابھی پوری طرح عاری نہیں ہوئے اور ان کے دلوں میں اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے لئے اعانت اور قربانی کے بنیادی جذبے ابھی کسی حد تک باقی ہیں۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ اگر ان جذبات و احساسات کو ٹھیک طرح سے استعمال کرتے ہوئے کوئی باقاعدہ صورت دیدی جائے تو یہی لوگ پاکستان کو ایک ترقی یافتہ اور خوشحال مملکت بنانے کے لئے مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ایک تبصرہ:

  1. اللہ آپ کو جزائے خیر دے، خیر کی کمی نہیں۔ بس ذرا حالات کی گرد میں کہیں دب سی گئی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں