بڑے گھروں میں کام کرنے والی کسی چھوٹی بچی کی ہلاکت کا یہ پہلا یا آخری واقعہ نہیں ہے۔ گاہے ماہے گھروں میں کام کرنے والے چھوٹے بچوں پر بدترین تشدد کے بارے میں خبریں منظرِ عام پر آتی ہی رہتی ہیں۔ مالداروں کی اکثریت چونکہ کتے کی دم کی نفسیات پر چلتی ہے، لہٰذا ہمیں مستقبل میں بھی ایسے واقعات کے خاتمے کے حوالے سے کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ یہ گھر جہاں چھوٹے بچے ملازم رکھے جاتے ہیں ہمارے معاشرے کے بالائی متوسط اور بالائی طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ عام خیال یہی ہے کہ ان گھروں کے باسی پڑھے لکھے، شریف اور مہذب ہوتے ہیں لیکن ان گھروں کے حوالے سے کبھی کبھار ذرائع ابلاغ کی زینت بننے والی خبروں پر نظر دوڑائی جائے تو دل میں خیال آتا ہے:
؎ نہ جانے کون سے جنگل سے اٹھ کے آئے ہیں
ہمارے ان لوگوں کو پڑھے لکھے، شریف اور مہذب کہنے والی بات اگر آپ کے دل میں کھٹک رہی ہے تو چلئے آپ کو ایک چھوٹا سا واقعہ سناتے ہیں۔ ادیب جاودانی لاہور میں نجی اسکولوں کے ایک سلسلے کے مالک اور آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز منیجمنٹ ایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔ یادش بخیر تقریباً تین برس قبل روزنامہ جنگ لاہور کے کلاسیفائیڈ صفحات پر جاودانی صاحب کے اسکول کا ایک اشتہار شائع ہوا تھا۔ اشتہار کی عبارت کچھ یوں تھی کہ اسکول میں چھوٹے بچوں کی نگہداشت کے لئے دس بارہ سالہ بچی کی ضرورت ہے۔ ہمیں شاید یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ دس بارہ برس کی بچی چھوٹے بچوں کی نگہداشت کی اہلیت رکھتی ہے یا اس عمر میں اسے خود کسی کی جانب سے نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔
مشقتِ بچگان یعنی چائلڈ لیبر دنیا بھر میں ایک جرم کی حیثیت رکھتی ہے اور پاکستان میں اس وقت کئی غیرسرکاری تنظیمیں یعنی این جی اوز اس کے خاتمے کے لئے کوشاں ہونے کی دعویدار ہیں۔ مشقتِ بچگان کے انسداد کے لئے پاکستان میں قوانین بھی موجود ہیں مگر یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ہمارے ہاں قانون طاقتور کے گھر کی لونڈی ہے اور اس کے ساتھ سلوک بھی لونڈی والا ہی کیا جاتا ہے۔ دراصل، قوانین کا نفاذ جن اداروں کی ذمہ داری ہے اور اس نفاذ پر نظر رکھنا جن تنظیموں کے اختیار میں ہے، ان سے وابستہ افراد کی ایک قابلِ ذکر تعداد خود ایسے دھندوں میں مشغول ہوتی ہے جو کسی نہ کسی قانون کی زد میں آرہے ہوتے ہیں۔ گویا محاورے کی زبان میں یوں سمجھ لیجئے کہ ہمارے ہاں بلی کو دودھ کی رکھوالی پر بٹھا دیا جاتا ہے۔
بات شروع ہوئی تھی دس سالہ ارم سے جو اب سپردِ خاک ہوچکی ہے۔ گو کہ اس کے قتل کے الزام میں ناصرہ، اس کا شوہر اور بیٹا پولیس کی حراست میں ہیں مگر عسکری نائن کے مالدار رہائشیوں کے لئے دیپالپور کے مفلوک باسیوں کو دیت ادا کر کے معاملہ رفع دفع کردینا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ کسی معاشرے کے ظلم و ناانصافی کے مقابلے میں کفر کے ساتھ قائم رہنے والا سنہری قول تو ہم نے بھی سن رکھا ہے مگر سوچ یہ رہے ہیں کہ جس معاشرے کے خمیر میں نصوصِ قرآنی و احادیثِ محبوبِ سبحانیؐ سے کفر اور ظلم و ناانصافی بنیادی اجزائے ترکیبی کے طور پر بحصۂ مساوی شامل ہوں اس کا مستقبل بھلا کیا ہوگا؟
کوئی قانون اس وقت تک موثر طور پر لاگو نہیں ہو سکتا جب تک کہ اسے معاشرے کی بھرپور سپورٹ میسر نہ ہو ۔ خرابی معاشرے میں ہے نہ کہ قانون میں ۔
جواب دیںحذف کریںمجھے حیرانی اس بات کی ہوتی ہے کہ چائلڈ لیبر کے خلاف اواز اٹھانے والے ان جیسے واقعات پر ایکشن کیوں نہیں لیتے؟
جواب دیںحذف کریںکیا انکی بھی (وہی) مجبوریاں ہوتی ہیں؟
دوسری بات یہ کہ عوام ہی اسکے خلاف اواز اٹھائیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عوام کو اس قدر مسائل میں پھنسایا گیا ہے ،کہ وہ ان جیسے واقعات کے خلاف بولنے سے پہلے کئی بار سوچھتے ہیں۔
بس جس بات پر ملک و قوم کی عزت تار تار ہوتی ہو اس پر میڈیا بہت فخر محسوس کرتا ہے کہ بریکنگ نیوز لگائی جائے اور صبح تا شام کتے کی طرح بھونکا جائے، جس بات پر لفظ اسلام اور پاکستان کا تقدس پامال ہوتا ہو، اس بات پر این جی اوز اور مردود نام نہاد چائلڈ لیبر ، وومن رائٹس، کتا رائٹس، بلی رائٹس والے ریلیا ں نکالتے ہیں اور چاوں چاوں کرتے ہیں۔ لیکن جہاں ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے وہاں ایک خبر اور پھر جسد خاکی کے خاک میں ملنے کے ساتھ ہی سب کچھ خاک زدہ ہو جاتا ہ ے۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم لوگ سوائے اپنی نام نہاد درد مندی پر چند دن ماتم کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔۔۔ ۔ ۔
جواب دیںحذف کریںاور غریب کی زندگی سوائے ایک جبر مسلسل کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔
امیر طبقہ ہر بات پر ٹینشن میں ہوتا ہے، کیوں کہ انہوں نے ٹینش بھی ایک فیشن کی طرح اپنایا ہوا ہے، اور اس کی بھینٹ بھی غریب ہی کو چڑھنا پڑتا ہے۔
کاش کوئی جنگل کا قانون ہی آ جائے، سنا ہے کہ جنگل میں بھی قانون ہوتا ہے۔