لاہور کی گلبرگ کالونی بڑی شان کی بستی سمجھتی جاتی ہے۔ لاہور کے ادب نوازو! سچ سچ بتاؤ کیا یہ نواحستان بلکہ بنگلستان کبھی کسی ادبی سرگرمی کا گلستان کہلایا؟ جیسی محفلیں بھاٹی دروازے کے اندر بازار حکیماں میں جما کرتی تھیں، ویسی محفلیں گلبرگ کالونی میں کبھی جمیں؟ یار باشی کے جو رنگ عرب ہوٹل اور نگینہ بیکری میں تھے، اس کالونی کے کسی چائے خانہ میں ہیں؟ ڈبی بازار، گمٹی بازار، قلعہ گوجر سنگھ، مزنگ اور اچھرہ میں ہمسایوں کے درمیان جو قرب اور بےتکلفیاں ہیں، موڈل ٹاؤن کے ہمسایوں کے درمیان ہو ہی نہیں سکتیں۔ میں نے اپنا بچپن موڈل ٹاؤن میں گزارا، اس بستی کے باشندوں میں گرمجوشی ہرگز نہ تھی، ہمسایوں کے بچے البتہ مل کر کھیل لیتے تھے۔ پھر اس بنگلستان کو بیگانستان کیوں نہ کہیں!
بنگلستان کے پروردگان میں وہ حوصلہ ہو ہی نہیں سکتا جو گلیوں کے رہنے والوں میں ہوتا ہے۔ اقبال گلیوں میں پل کر جس طرح حوصلہ مند ہوئے سول لائنز میں پل کر کبھی نہ ہوپاتے۔ وہ شاعر جو بھاٹی دروازے کا مکین نہیں رہا 'شکوہ' جیسی نظم نہیں کہہ سکتا۔ گلبرگ کالونی میں پلا ہوا گویّا وہ بیباکانہ اور دلکشا تان کیسے مار سکتا ہے جو استاد فتح علی خاں کے حصے میں آئی ہے۔
(داؤد رہبر کی 'پراگندہ طبع لوگ' کے مضمون 'میزبان اور مہمان' سے اقتباس)
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔