چین کے میڈیا میں حال ہی میں ایک تہلکہ خیز خبر منظرِ عام پر آئی ہے کہ 2012ء میں شمالی چین کے ہیبیئی صوبے کے ڈانگ زینگ نامی گاؤں کے ایک مفلوک الحال کسان ژینگ یان لیانگ نے علاج کے لئے رقم نہ ہونے کی وجہ سے اپنی ٹانگ خود ہی آری سے کاٹ لی۔ اطلاعات کے مطابق ژینگ کے پاؤں میں انفیکشن ہونے کی وجہ سے ان کی ٹانگ میں خون کا بہاؤ رک گیا تھا۔ جب انہوں نے اس سلسلے میں ڈاکٹروں سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک ٹانگ کا علاج کیا گیا تو تین لاکھ یوان تک کا خرچ آئے گا اور اگر دوسری ٹانگ کے علاج کی ضرورت بھی محسوس کی گئی تو خرچ بڑھ کر دس لاکھ یوان تک پہنچ جائے گا۔ ژینگ کے پاس کل جمع پونجی بیس ہزار یوان سے زیادہ نہ تھی۔
ژینگ علاج معالجے کی سہولیات نہ ملنے کی وجہ سے کئی مہینے شدید درد برداشت کرتے رہے۔ اس دوران میں ان کے پاؤں کالے ہوگئے اور جلد اور گوشت سڑنے لگا۔ شدید تکلیف کے مسلسل بہاؤ کے سامنے بالآخر ہتھیار ڈالتے ہوئے ژینگ نے وہ اقدام کیا جس کا تصور ہی انسان پر لرزہ طاری کردیتا ہے۔ انہوں نے آری کی مدد سے خود ہی اپنی ٹانگ کاٹ لی اور اس دوران میں شدید تکلیف کو برداشت کرنے کے لئے انہوں نے ایک چھری تولیے میں لپیٹ کر اپنے دانتوں کے درمیان میں رکھ لی۔
ژینگ کے ٹانگ کاٹ لینے کی خبر تقریباً ایک برس کے بعد جب میڈیا کے ذریعے عام ہوئی تو لوگوں نے ان کے علاج کے لئے تین لاکھ یوان سے بھی زیادہ کی رقم کا چندہ جمع کرلیا جبکہ انہیں مفت علاج کی پیشکش بھی کی گئی۔ ژینگ کہتے ہیں کہ انہیں علاج سے زیادہ اپنے حالات کی فکر لاحق ہے کہ ان آمدنی پہلے ہی کچھ نہیں ہے اور اگر ایسے میں وہ بالکل ہی لاچار ہو کر بستر پر پڑگئے تو دو وقت کی روٹی کہاں سے میسر آئے گی۔
اس صورتحال نے چین کے دیہات میں علاج معالجے کی سہولیات کے حوالے سے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ سوا ارب سے زائد نفوس پر مشتمل اس ملک میں آدھی سے زیادہ آبادی دیہات سے متعلق ہے مگر 80 فیصد سہولیات کا ارتکاز صرف شہروں تک ہی ہے۔ یہاں ایک بات ضمناً یاد آگئی کہ عالمی وسائل کے حوالے سے کی گئی تحقیقات یہ بھی بتاتی ہیں کہ دنیا کے 80 فیصد وسائل پر 20 فیصد لوگ قابض ہیں جبکہ بقیہ 20 فیصد وسائل میں 80 فیصد لوگوں کو گزر اوقات کرنا پڑتی ہے۔ خیر، یہ وسائل اور ان کی غیرمنصفانہ تقسیم کی بحث کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔
شمالی چین کے باسی ژینگ یان لیانگ کا یہ دلخراش واقعہ ہمیں اپنے جنوبی اور وسطی پنجاب کے کسی اللہ ڈیوایا یا محمد بوٹا کی صورتحال سے بہت مماثلت رکھتا دکھائی دیتا ہے۔ فاقوں سے دن رات نبرد آزما یہ مفلس ویسے تو کبھی بھی حکومت یا ان کے نام پر کروڑوں روپے ڈکار جانے والی غیرسرکاری تنظیموں یعنی این جی اوز کی توجہ کا مرکز نہیں بنتے لیکن جیسے ہی ان میں سے کوئی شخص اپنے بچوں کے گلے میں 'برائے فروخت' کا بورڈ لٹکا کر کسی پریس کلب کے سامنے آ کر کھڑا ہوجائے یا اس سے بھی آگے بڑھ کر انتہائی سنگین قدم اٹھاتے ہوئے حالات کے جبر سے بچنے کے لئے اپنے کنبے کے ساتھ مل کر اجتماعی خودکشی یا خودسوزی کی کوشش کرے اور اتفاق سے بچ جائے تو سرکاری محکمے اور 'ڈکاری' تنظیمیں ہڑبڑا کر خوابِ غفلت سے بیدار ہوتی ہیں اور فوراً اس خاندان کے لئے امداد کا اعلان کردیا جاتا ہے۔
ہم بات کو یہاں ختم کرنا چاہ رہے تھے مگر اسی ذیل میں ایک واقعہ اور یاد آگیا تو سوچا وہ بھی آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کرلیا جائے۔ گزشتہ دنوں ہماری امریکہ میں اپنی ایک عزیزہ سے فون پر بات ہوئی۔ خاتون پیدائشی امریکی ہیں اور وہاں نرس کے طور پر خدمات انجام دیتی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ان کا آپریشن ہوا تھا تو ہم نے خیریت معلوم کرنے کے لئے فون کیا تھا۔ باتوں باتوں میں ہم نے پوچھا کہ علاج کا خرچ کس نے اٹھایا اور معالجین نے دو مہینے کے لئے جو آرام تجویز کیا ہے، اس کے لئے ملنے والی رخصت تنخواہ کے ساتھ ہے یا بغیر۔ انہوں نے بتایا کہ رخصت بغیر تنخواہ کے ہے اور علاج معالجہ کافی مہنگا ہے، لہٰذا اس سلسلے میں کچھ مدد ایک تنظیم نے کی اور کچھ بہن بھائیوں کا ایثار آڑے آیا۔
اب واپس آئیے ژینگ سے شروع ہونے والی بات کی طرف، اس تکلیف دہ واقعے اور اس کے بعد پیش کئے گئے ضمنی حوالوں سے ایک بات تو واضح ہوگئی ہے کہ مفلس خواہ اشتراکیت کے دعویدار چین کے باشندے ہوں، سرمایہ داریت کے دلدادہ امریکہ کے باسی ہوں یا اسلامی تشخص کے بزعمِ خود حامل پاکستان کے رہنے والے ان کی حالت اور حالات میں مطابقت بالکل ویسے ہی پائی جاتی ہے جیسے مذکورہ تینوں ملکوں میں اگنے والے ایک ہی قسم کے پھل یا سبزیاں ایک دوسرے سے مماثل ہوتے ہیں۔
محترم ۔ آپ نے درست نتیجہ نکالا ہے ۔ دنیا کے ذرائع ابلاغ سرمایہ دار کے ہاتھ میں ہیں جو اسے ہمارے جیسے ملکوں کو زچ کرنے اور انہیں دستِ نگر بنانے میں لگے رہتے ہیں ۔ ہمارا ملک کتنا ہی خراب ہے نا لیکن صرف شہروں میں ہی سہی کافی حد تک ہر ایک کو علاج کی سہولت حاصل ہے ۔ میں نے بھی کئی بار ہسپتال میں اپنی باری کا گھنٹوں انتظار کیا ہے اور دوائیاں بھی بازار سے ضریدتا ہوں لیکن امریکہ میں تو انشورنس والے ادائیگی کرتے ہیں اور اگر کسی کی ہیلتھ انشورنس نہ ہو تو گیا کام سے ۔ انشورنس ہوتے ہوئے بھی ہر قسم کے علاج کا سارا خرچہ انشورنس والے نہیں دیتے ۔ یہ این جی او کے نام کے ادارے تو انسانوں کی مدد نہیں کرتے بلکہ انسان خریدتے ہیں ۔ البتہ اپنے ملک میں ایسے لوگ ہین جو چُپ چاپ مستحقیقن کی مدد کرتے ہیں
جواب دیںحذف کریںبےشک دنیا میں کہیں بھی مجبور اور لاچار کا پرسانِ حال کوئی نہیں سوائے مالکِ کائنات کے،انسان محض وسیلہ بنتے ہیں ۔اور سبزیوں اور پھلوں جیسی مماثلت بھی خوب ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ وضع قطع سے ہٹ کراصل چیز ذائقہ اور خوشو ہوتی ہے۔ خیر وہ بات کسی اور رخ پر چلی جائے گی ۔ بات کہنے کی یہ ہے کہ اہم سبق اس بے چارے "چینی" کے عمل اور اب تک زندہ رہنے سےسے یہ ملا کہ"ہمت ِمرداں مدد خدا "
جواب دیںحذف کریںلیکن ایسے معجزے بار بار نہیں ہوتے یہ سوئے ہوئے اذہان کو جھنجھوڑنے کے لیے ہی سمجھا جائے ورنہ ہرغریب کے مسئلے کا حل یہ نہیں۔ شکریہ