دنیا بھر میں موجود قوانین کے مطابق کسی شخص کو اس وقت تک مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک کہ گواہوں اور ثبوتوں کی مدد سے اس پر لگایا جانے والا الزام ثابت نہ ہوجائے مگر انسدادِ ہراسگی کا قانون اس حوالے سے بھی اپنی نوعیت کا واحد قانون ہے کہ اس کے تحت جس شخص کے خلاف درخواست دیدی جائے وہ بغیر کسی گواہی یا ثبوت کے فوری طور پر مجرم قرار پاجاتا ہے اور اب یہ الزام لگانے والے کا نہیں بلکہ اس شخص کا مسئلہ ہے کہ وہ خود کو بےگناہ ثابت کرے ورنہ بدنامی کا داغ ماتھے پر لیے اپنی عزت کی دھجیاں سمیٹتے ہوئے زندگی کے باقی ماندہ سال گزارے۔
یہ بات تو وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ گزشتہ تین برس کے دوران اس قانون کے باعث عورتوں کے خلاف ہراسگی کا انسداد یا تدارک کس حد تک ممکن ہوپایا ہے، تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ مذکورہ قانون تعلیمی اداروں، دفاتر اور دیگر جگہوں پر مردوں کو ہراساں کرنے کا وسیلہ ضرور بنا ہے۔ ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ کوئی خاتون شاگرد اپنے مرد استاد کے پاس تحقیقی خاکہ یعنی ریسرچ سائناپسس لے کرگئی اور استاد نے اس تحقیقی خاکے کی غلطیاں واضح کرتے ہوئے موصوفہ سے تحقیقی خاکہ دوبارہ ترتیب دینے کو کہا تو وہ لائبریری کا رخ کرنے کی بجائے سیدھی سربراہِ ادارہ کے دفتر پہنچی اور پہلے رو رو کر اپنی من گھڑت کتھا بیان کی کہ کس طرح استاد موصوف نے اسے جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی اور پھر ایک عدد درخواست داغ کر استادِ محترم کے عشروں کو محیط کیرئیر اور نیک نامی کا قصہ تمام کردیا۔
پاکستان میں ایک خاص طبقے کی جانب سے قانونِ توہینِ رسالت کو 'کالا قانون' کہہ کر اس کی تنسیخ کا مطالبہ تو شد و مد سے کیا جاتا ہے، تاہم گزشتہ تین برس کے دوران انسدادِ ہراسگی کے 'گورے قانون' کے جال میں بیسیوں بےگناہوں کے پھنسنے کے باوجود نہ تو اس میں کسی ترمیم کی ضرورت محسوس کی گئی اور نہ ہی کبھی اسے انسانی حقوق سے متصادم قرار دیا گیا۔
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔