تازہ ترین
کام جاری ہے...
اتوار، 7 جولائی، 2013

دادی: ایک ہنس مکھ اور بہادر خاتون

دادی کی عمر 80 سال کے لگ بھگ ہوگی۔ ان سے ہمارا پہلا تعارف کب ہوا تھا، یہ ہمیں یاد نہیں مگر بتایا کچھ ایسا ہی گیا ہے کہ ہماری پیدائش کے چند ہی منٹ کے بعد شہد کی وہ تھوڑی سی مقدار جو گھٹی کے طور پر ہمیں دی گئی تھی، وہ دادی ہی کی انگشت مبارک سے ہمارے دہن تک منتقل ہوئی تھی۔ جب ہوش سنبھالا تو پتہ چلا کہ دادی ویسے تو والدِ بزگوار کی اماں ہیں مگر ہم سے بڑے تمام تایا اور پھوپھی زاد انہیں 'وڈی امی یا امی' کہہ کر بلاتے ہیں، لہٰذا ہم نے بھی ان لوگوں کی پیروی کرتے ہوئے دادی کو 'وڈی امی' کہنا شروع کردیا۔ چونکہ پردادا سے چلنے والی مرکزیت دادا اور ابا جی سے ہوتی ہوئی ہم تک منتقل ہوچکی تھی (یہ مرکزیت کیا ہے اور خاندان کے مجھ سے بڑے اور چھوٹے کئی دیگر سپوتوں کے ہوتے ہوئے ہمارا ہی مقدر کیوں بنی، اس کا احوال ادھار رہا!)، سو ہم دادا اور دادی کو بہت عزیز تھے اور ہمارا زیادہ تر وقت انہی دونوں کے ساتھ گزرتا تھا۔ ہم نے جب سے دادی کو دیکھا ہے انہیں بہت ہی ہنس مکھ اور پیار کرنے والی خاتون پایا ہے، خود ہنستی ہیں، دوسروں کو ہنساتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ سب ہی ان سے بہت پیار کرتے ہیں۔ دادی کو سینکڑوں لطیفے اور کہانیاں یاد ہیں جنہیں سنا کر وہ ہم سب کو خوش کرتی رہتی ہیں!

امی بتاتی ہیں کہ ایک بار ابا جی کے ایک کزن نے شرارتاً دادی سے کہا کہ آج چاچا جی گھر آئیں گے تو آپ انہیں 'آئی لو یو' کہنا۔ دادی سیدھی سادی خاتون تھیں، انہوں نے بات کا مطلب نہیں پوچھا اور جب دادا گھر آئے تو وہ گلی میں کھڑی تھیں جہاں کچھ اور لوگ بھی موجود تھے، دادی نے ان سب کے سامنے دادا سے کہا، آئی لو یو۔ دادا پڑھے لکھے اور بےحد دلچسپ انسان تھے، انہوں نے فوراً جواب میں کہا، میں بھی تم سے پیار کرتا ہوں۔ دادی نے کہا، ہائے میں مرگئی، اور شرما کر گھر کے اندر چلی گئیں۔

نومبر 1985ء کی 21 تاریخ دادی کے لئے ان کی زندگی کے سیاہ ترین دنوں میں سے ایک تھی کیونکہ اس روز دادا ان سے کئے ہوئے پیار محبت کے تمام تر وعدوں کو توڑ کر دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔ ہم تو بہت ہی چھوٹے تھے، سو دادا کی کمی زیادہ محسوس نہیں کی مگر تایا، ابا جی، چچاؤں اور پھوپھیوں کی زندگی پر ان کے جانے سے بہت فرق پڑا اور سب سے زیادہ فرق جس شخص کو پڑا، وہ دادی تھیں۔ مگر وہ ایسی صابر اور باہمت خاتون ثابت ہوئیں کہ دادا کی جدائی کے صدمے کو اپنے دل کے نہاں خانوں میں چھپا کر بچوں کی تربیت پر توجہ دینے لگیں۔ تایا کو کام کرنے کی عادت نہیں تھی، اسی لئے دادا، ابا جی کو اپنے ساتھ رکھتے تھے اور دادا کے بعد کاروبار بھی ابا جی کو ہی سنبھالنا پڑا۔ یوں بڑے بھائی کے کنبے، اپنے بیوی بچوں، ماں اور چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری ابا جی پر آن پڑی مگر آفرین ہے اس مردِ قلندر پر کہ انہوں نے کبھی ایک حرف بھی گلے یا شکوے کا نہیں کہا اور سب کی خدمت کرتے رہے اور الحمدللہ آج تک کررہے ہیں۔ خیر، بات دادی کی ہورہی تھی، ابا جی تو یونہی درمیان میں آگئے کیونکہ وہ دادی کے بہت لاڈلے ہیں۔

09 جنوری 1986ء کے روز، جب دادا کو ہم لوگوں سے بچھڑے ابھی دو مہینے بھی نہیں ہوئے تھے، ہمارا چھوٹا بھائی کاشف میو ہسپتال میں آپریشن کے دوران انتقال کرگیا۔ وہ ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت اور صحت مند بچہ تھا اور اس نے صحت مند بچوں کا ایک مقابلہ بھی جیت رکھا تھا جس میں حاصل کئے گئے انعامات آج بھی ہماری امی کے پاس محفوظ ہیں اور وہ کبھی کبھار اس کی تصویروں اور ان انعامات کو دیکھ کر روتی بھی ہیں۔ دادی کے لئے یہ دوسرا بڑا صدمہ تھا۔
 
وقت گزرتا رہا اور ایک ایک کرکے دادی نے سب بچوں کی شادی کردی۔ دادی کی والدہ، جنہیں ہم سب ہی نہیں بلکہ پورا علاقہ ہی بے بے یا بے جی کہتا تھا، تب تک زندہ تھیں اور دادی کے ساتھ ان کے تعلق کی نوعیت بہت دلچسپ تھی۔ کبھی وہ دونوں بیٹھ کر ایک دوسری کے ساتھ سکھ دکھ بانٹتیں تو کبھی ایک دوسری سے ناراض ہوجاتیں۔ جھگڑا ہوتا تو بے بے کہتیں، "صغریٰ، ہن میں تیرے گھر نئیں آنا۔" مگر جانا کہاں ہوتا تھا انہوں نے، کچھ دیر کے بعد واپس آجاتیں اور پھر سے دونوں کی 'صلح' ہوجاتی۔ (یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ ہم دادی ہی نہیں، بے بے کے بھی منظور نظر تھے۔ وہ ہمیں پیار سے 'آپی' کہتی تھیں اور ہمیشہ ہمارے سر کو چومتی تھیں۔)
 
ہم ابھی سکول میں ہی پڑھتے تھے کہ بے بے کا انتقال ہوگیا اور یوں دادی اپنی ایک بہترین سہیلی سے محروم ہوگئیں۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی تایا کی طبیعت بھی خراب رہنے لگی۔ ویسے تو وہ ان کے لئے پہلے سے بنائے ہوئے الگ گھر میں جا کر رہنے لگے تھے مگر مالی حوالوں سے اب بھی ان کا بہت سا انحصار اپنے چھوٹے بھائی یعنی ابا جی پر ہی ہوتا تھا اور الحمدللہ ہمارے ہاں کبھی بھی کسی نے اس بات پر اعتراض نہیں کیا۔ تایا ہمارے دوستوں میں شمار ہوتے تھے اور ہمیں تاش کے مختلف کھیل کھیلنا بھی انہوں نے ہی سکھایا تھا مگر یہ سب کھیل ہم ابا جی سے چھپ کر کھیلتے تھے کیونکہ وہ ایسی چیزوں کے بہت خلاف تھے۔ خیر، تایا عارضۂ قلب میں مبتلا ہوگئے اور پھر ایک بار انہیں ہارٹ اٹیک ہوا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ دادی کے لئے بیٹے کی وفات کا صدمہ ناقابل برداشت تھا مگر اللہ نے صبر و ہمت دی اور وہ اسے بھی سہہ گئیں۔
 
تایا کے بچے چھوٹے تھے، ابا جی نے ان لوگوں پر زیادہ دھیان دینا شروع کردیا۔ دادی پہلے بھی تایا کے تقریباً روز ہی جایا کرتی تھیں مگر اب تو وہ کئی کئی گھنٹے جا کر اپنے پوتے پوتیوں کے پاس بیٹھی رہتیں، ان کا بہت خیال رکھتیں۔ جب کبھی دادی اور تائی کی آپس میں نوک جھونک ہوجاتی تو دادی ان کے گھر جانا چھوڑ دیتیں مگر دن میں دو تین بار آ کر باہر سے ہی بچوں کا حال پوچھتیں اور ان کے دروازے کو ہاتھ لگا کر واپس چلی جاتیں۔ تایا کی وفات کے دو تین سال بعد ہی ایک روز تائی بھی ان کے پاس چلی گئیں اور یوں ان کے بچے ماں کی شفقت سے بھی محروم ہوگئے۔ اس نازک مرحلے پر بھی دادی نے بہت حوصلے سے کام لیا اور ان بچوں کو اپنے اور زیادہ قریب کرلیا تاکہ انہیں ماں کی کمی محسوس نہ ہوسکے، دوسری جانب باپ کے طور پر ذمہ داری ابا جی نے لے رکھی تھی اور وہ ہر موقع پر اپنے بھائی کی اولاد کو اپنی اولاد سمجھ کر پیار دیتے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔
 
دو تین سال کے وقفے سے یکے بعد دیگرے دادی کی دو بیٹیاں (یعنی ہماری پھوپھیاں) طویل علالت کے بعد انتقال کرگئیں۔ ہماری سب سے بڑی پھوپھی اور دادی کی آپس میں بہت بنتی تھی اور دادی کو ان کی وفات کا بےحد دکھ بھی ہوا مگر زندگی کا سفر چونکہ ابھی باقی تھا، سو چلتی رہیں۔ چند ماہ قبل ہماری جواں سال تایا زاد کی وفات سے بھی دادی کو بہت صدمہ ہوا مگر صبر کرنے کے سوا کیا ہوسکتا تھا۔ یہ سب صدمے، مصائب اور تکلیفیں سہہ کر بھی دادی اپنے پہاڑ جیسے حوصلے کے ساتھ زندہ رہیں اور سب سے پیار محبت کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ خوشیاں بانٹتی رہیں۔

تاریخِ اشاعت: 03 اکتوبر، 2012ء

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں