کل صبح کچھ مالی معاملات طے کرنے کے لئے مجھے ایک لمبے عرصے کے بعد اپنے
بینک جانا پڑا۔ عام طور پر میں بینک سے لین دین انٹرنیٹ بینکنگ کے ذریعے ہی
کرتا ہوں اور دیگر معاملات کے لئے بوقتِ ضرورت ڈیبٹ کارڈ کی سہولت سے
فائدہ اٹھاتا ہوں۔ بینک چونکہ جی سی یونیورسٹی کے سامنے واقع ہے، لہٰذا یہ
تو ناممکن تھا کہ میں اپنی مادرِ علمی کا چکر نہ لگاتا۔ خیر، یونیورسٹی
گیا، اپنے استادوں سے ملا اور دفتر گزٹ، دفتر راوی، ایمفی تھیئٹر، لوَرز
گارڈن (لوجیا)، اوول، بخاری لانز اور دیگر جگہوں پر گھوم پھر کر پرانے
سنہرے دنوں کی یادوں کو تازہ کیا۔
یونیورسٹی میں گھوم پھر رہا تھا کہ اچانک میری نظر کلائی گھڑی پر پڑی تو دیکھا کہ ساڑھے بارہ بج رہے تھے، مجھے خیال آیا کہ نجیب بھائی اور ساجد بھائی سے ملے کئی دن گزر گئے ہیں تو کیوں نہ ان دونوں بزرگوں کو پاک ٹی
ہاؤس میں بلایا جائے۔ یہ خیال آتے ہیں میں نے جھٹ سے موبائل فون جیب سے
نکال کر ساجد بھائی کا نمبر ملایا تو ان کے جانشین انس نے فون اٹھایا۔ میں
نے پوچھا کہ اس کے ابا حضور کہاں ہیں تو انس نے بتایا کہ وہ ذرا مصروف ہیں
اور جیسے ہی فارغ ہوں گے وہ انہیں میرے فون سے متعلق اطلاع دے گا۔ بعدازاں
میں نے نجیب بھائی کا نمبر ملایا۔ انہوں نے فون اٹھایا تو مجھے آواز سے
اندازہ ہوگیا کہ جناب خواب نگر میں تھے اور میں نے بےوقت کردیا۔ خیر، نجیب
بھائی سے معذرت کی تو انہوں نے انتہائی تپاک سے کہا کہ میں تو بس اٹھنے ہی
والا تھا۔ ان سے پوچھا کہ دو بجے کیا کررہے ہیں، فرمایا کہ کچھ بھی نہیں۔
میں نے موقع غنیمت جانا اور کہا کہ بس پھر دو بجے پاک ٹی ہاؤس پہنچ جائیے،
میں ساجد بھائی سے بھی کہہ دیتا ہوں اور باقی باتیں ملاقات پر ہی ہوں گی۔
ساڑھے بارہ سے لے کر دو بجے تک میں نے ساجد بھائی سے رابطہ کرنے کی چار
مرتبہ کوشش کی مگر ہر بار دس بارہ گھنٹیاں بجنے کے بعد ایک اجنبی خاتون کی
مانوس سی آواز آتی، 'The number you've dialed is not responding at the
moment, please try later (آپ کے مطلوبہ نمبر سے فی الوقت رابطہ ممکن نہیں،
براہِ مہربانی کچھ دیر بعد کوشش کیجئے۔ شکریہ)'۔ میں ساجد بھائی سے رابطے
کی انہی ناکام کوششوں میں مصروف تھا کہ دو بج کر پانچ منٹ پر نجیب بھائی کی
کال آئی کہ وہ پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھے بوتل پیتے ہوئے میرا انتظار کررہے
ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ میں بس پانچ منٹ میں حاضر ہورہا ہوں۔
سوا دو بجے کے لگ بھگ میں موٹرسائیکل پارک کرنے کے بعد پاک ٹی ہاؤس کا
دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو سامنے والی میز پر نجیب بھائی کو منتظر
پایا۔ ان سے ملا، تاخیر سے پہنچنے پر معذرت کی اور پھر کچھ رسمی گفتگو کے
بعد ہم نے منیو پر نظر ڈالی کہ کیا منگوایا جائے۔ کچھ ہی دیر میں طے پاگیا
کہ بریانی کھائی جائے گی۔ سجاد نامی بیرے پر نجیب بھائی میرے پہنچنے سے
پہلے ہی اپنی شخصیت کی دھاک بٹھا چکے تھے، لہٰذا اسے طلب کر کے کہا گیا کہ
دو پلیٹ بریانی حاضر کی جائے۔ کچھ ہی دیر میں سجاد نے بریانی پیش کردی۔
کھانا کھانے کے بعد ہم لوگوں سے سجاد سے چائے لانے کا کہا اور خود مختلف
زاویوں سے ٹی ہاؤس کی تصاویر لینے لگے۔ نجیب بھائی کی اور میری متفقہ رائے
یہ تھی کہ پاک ٹی ہاؤس کی بحالی بلاشبہ پنجاب حکومت کے کارناموں میں سے ہے۔ جس عمدہ طریقے سے اس قومی اثاثے کو بحال اور محفوظ کیا گیا ہے وہ واقعی لائقِ تحسین ہے۔
تاریخِ اشاعت: 21 مارچ، 2013ء
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔