ایک قومی روزنامے میں شائع ہونے والی ایک سنگل کالمی خبر نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ خبر کچھ یوں تھی، "(جہانیاں کے نواحی گاؤں) چک نمبر 111 دس آر کی مسجد اللہ والی سے چور نے تمام ٹونٹیاں اتار لیں۔ نامعلوم چور مسجد میں یہ تحریر چھوڑ گیا، "میں انتہائی غریب آدمی ہوں۔ میرے گھر میں آٹا بھی نہیں۔ حالات بہتر ہونے پر ٹونٹیوں کی قیمت مسجد میں جمع کرادوں گا۔""
مملکتِ خداداد پاکستان دنیا میں نظریاتی بنیادوں پر حاصل کی جانے والی پہلی ریاست تھی۔ ریاست کے قیام کے وقت جان و مال کی قربانیاں دینے والے یہ امید کررہے تھے کہ پاکستان کے قائم ہوتے ہی مصائب و آلام کا دور ختم ہوجائے گا اور عزت و وقار کے ساتھ جینے کے وسیلے میسر آئیں گے۔ لہو کی ندیاں بہیں، عزتوں کی دھجیاں اُڑیں، مال و متاع کی بربادی ہوئی اور ریاست قائم ہوگئی۔ ریاست کا قیام ایک عام آدمی کے لئے کس حد تک خوشحالی و آسودگی کا وسیلہ ثابت ہوا، اس بات کا جائزہ لینے کے لئے کسی دیہات یا قصبے میں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ کسی بھی بڑے شہر کے چھوٹے رہائشی علاقوں میں چلے جائیے، آپ کو اندازہ جائے گا کہ ہم معاشرتی ترقی کے کس دور میں جی رہے ہیں۔
ریاست کی بدحالی میں جہاں سیاستدانوں، جاگیرداروں اور نوکر شاہی نظام نے بدترین کردار ادا کیا ہے، وہیں مذہبی ٹھیکیدار بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہے اور انہوں نے اس کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا۔ ملک بھر میں موجود لاکھوں مساجد اب عبادت گاہیں نہیں رہیں بلکہ مسلکی منافرت پھیلانے کے ٹھکانے اور مال بٹورنے کے اڈے بن چکی ہیں۔ میں نے اپنے ہوش کے دو ڈھائی عشروں میں کئی مساجد کی تعمیر شروع ہوتے دیکھی اور حلفاً کہتا ہوں کہ آج تک ان میں سے کسی ایک کی بھی تعمیر مکمل نہیں ہوئی۔ کبھی لینٹر کے لئے سریا کم پڑ جاتا ہے تو کبھی مینار اور گنبد پر پلستر کے لئے سیمنٹ درکار ہوتا ہے۔ کسی حاجی صاحب، ملک صاحب یا چوہدری صاحب کی نیک کمائی سے سریے اور لینٹر کے مسائل حل ہوجائیں تو مسجد کے اندر اور باہر رنگارنگ ٹائلیں لگانے کے لئے چندہ مانگنا شروع کردیا جاتا ہے۔ محلے والوں کی حبِ انفاق فی سبیل اللہ کے باعث یہ کام خوش اسلوبی سے مکمل ہوجائے تو مسجد کی توسیع کا کام شروع کردیا جاتا ہے۔ محلے کے 99 فیصد سے زیادہ گھروں میں ائیر کنڈیشنر نہیں ہوگا مگر مسجد میں ضرور لگوایا جائے گا۔ مسجد میں چلے جائیں تو ایسا لگتا ہے کہ اللہ کا گھر نہیں تعمیر ہوا بلکہ محلے والوں کی چھاتی پر مونگ دلنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ میں نے اپنے گناہگار کانوں سے کبھی کسی مسجد کے اسپیکر سے یہ نہیں سنا کہ مسجد کو چندہ تو آپ دیتے ہی رہتے ہیں کبھی اپنے اردگرد کے گھروں میں بھی جھانک کر دیکھ لیجئے کہ کوئی مجبور اور مفلس فاقوں تو نہیں مررہا۔
مسجد سے ٹونٹیوں کی چوری کا وہ واقعہ جس سے بات شروع ہوئی تھی کل میں بھی بھول جاؤں گا اور یقیناً آپ کا حافظہ بھی اسے زیادہ دیر محفوظ نہیں رکھ سکے گا مگر میں اس 'چور' کا تہہ دل سے ممنون ہوں جس نے ہماری معاشرتی بےحسی اور مذہبی ڈھکوسلے بازی کا پردہ چاک کردیا۔
مملکتِ خداداد پاکستان دنیا میں نظریاتی بنیادوں پر حاصل کی جانے والی پہلی ریاست تھی۔ ریاست کے قیام کے وقت جان و مال کی قربانیاں دینے والے یہ امید کررہے تھے کہ پاکستان کے قائم ہوتے ہی مصائب و آلام کا دور ختم ہوجائے گا اور عزت و وقار کے ساتھ جینے کے وسیلے میسر آئیں گے۔ لہو کی ندیاں بہیں، عزتوں کی دھجیاں اُڑیں، مال و متاع کی بربادی ہوئی اور ریاست قائم ہوگئی۔ ریاست کا قیام ایک عام آدمی کے لئے کس حد تک خوشحالی و آسودگی کا وسیلہ ثابت ہوا، اس بات کا جائزہ لینے کے لئے کسی دیہات یا قصبے میں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ کسی بھی بڑے شہر کے چھوٹے رہائشی علاقوں میں چلے جائیے، آپ کو اندازہ جائے گا کہ ہم معاشرتی ترقی کے کس دور میں جی رہے ہیں۔
ریاست کی بدحالی میں جہاں سیاستدانوں، جاگیرداروں اور نوکر شاہی نظام نے بدترین کردار ادا کیا ہے، وہیں مذہبی ٹھیکیدار بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہے اور انہوں نے اس کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا۔ ملک بھر میں موجود لاکھوں مساجد اب عبادت گاہیں نہیں رہیں بلکہ مسلکی منافرت پھیلانے کے ٹھکانے اور مال بٹورنے کے اڈے بن چکی ہیں۔ میں نے اپنے ہوش کے دو ڈھائی عشروں میں کئی مساجد کی تعمیر شروع ہوتے دیکھی اور حلفاً کہتا ہوں کہ آج تک ان میں سے کسی ایک کی بھی تعمیر مکمل نہیں ہوئی۔ کبھی لینٹر کے لئے سریا کم پڑ جاتا ہے تو کبھی مینار اور گنبد پر پلستر کے لئے سیمنٹ درکار ہوتا ہے۔ کسی حاجی صاحب، ملک صاحب یا چوہدری صاحب کی نیک کمائی سے سریے اور لینٹر کے مسائل حل ہوجائیں تو مسجد کے اندر اور باہر رنگارنگ ٹائلیں لگانے کے لئے چندہ مانگنا شروع کردیا جاتا ہے۔ محلے والوں کی حبِ انفاق فی سبیل اللہ کے باعث یہ کام خوش اسلوبی سے مکمل ہوجائے تو مسجد کی توسیع کا کام شروع کردیا جاتا ہے۔ محلے کے 99 فیصد سے زیادہ گھروں میں ائیر کنڈیشنر نہیں ہوگا مگر مسجد میں ضرور لگوایا جائے گا۔ مسجد میں چلے جائیں تو ایسا لگتا ہے کہ اللہ کا گھر نہیں تعمیر ہوا بلکہ محلے والوں کی چھاتی پر مونگ دلنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ میں نے اپنے گناہگار کانوں سے کبھی کسی مسجد کے اسپیکر سے یہ نہیں سنا کہ مسجد کو چندہ تو آپ دیتے ہی رہتے ہیں کبھی اپنے اردگرد کے گھروں میں بھی جھانک کر دیکھ لیجئے کہ کوئی مجبور اور مفلس فاقوں تو نہیں مررہا۔
مسجد سے ٹونٹیوں کی چوری کا وہ واقعہ جس سے بات شروع ہوئی تھی کل میں بھی بھول جاؤں گا اور یقیناً آپ کا حافظہ بھی اسے زیادہ دیر محفوظ نہیں رکھ سکے گا مگر میں اس 'چور' کا تہہ دل سے ممنون ہوں جس نے ہماری معاشرتی بےحسی اور مذہبی ڈھکوسلے بازی کا پردہ چاک کردیا۔
بجا فرمایا۔ کچی بستیوں کی مساجد بھی سنگِ مرمر کا محل محسوس ہوتی ہیں۔ اور تعمیر تو اکثر چلتی ہی رہتی ہے۔ پہلی توسیع و مرمت، آرائش و زیبائش، اس کے بعد تعمیرِ نو اور یہ چکر چلتا رہتا ہے۔
جواب دیںحذف کریں" میں نے اپنے گناہگار کانوں سے کبھی کسی مسجد کے اسپیکر سے یہ نہیں سنا کہ مسجد کو چندہ تو آپ دیتے ہی رہتے ہیں کبھی اپنے اردگرد کے گھروں میں بھی جھانک کر دیکھ لیجئے کہ کوئی مجبور اور مفلس فاقوں تو نہیں مررہا۔"
جواب دیںحذف کریںبہت اچھی بات کہی آپ نے۔
ہمارے ہاں اکثر مساجد میں بے جا آرائش و زیبائش میں بے پناہ خرچ ہوتا ہے۔ جب کہ یہی پیسہ اصلاحی کاموں میں خرچ ہو تو پھر مساجد کے مقاصد بھی پورے ہو سکیں۔
اس پوسٹ میں موجود یہ تصویر خبر سے متعلق ہے یا ویسے ہی لگائی ہے؟
جواب دیںحذف کریںٹھیک کہا شاکر بھائی آپ نے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری مسجدیں عام آدمی اور اس کے حالات کا مزاح اُڑا رہی ہوتی ہیں۔
جواب دیںحذف کریںجی بالکل درست کہا احمد بھائی۔
جواب دیںحذف کریںیہ تصویر اس مسجد کی نہیں، کسی اور زیرِ تعمیر مسجد کی ہے۔ مجھے یہ تصویر سب سے موزوں لگی تو اس لئے اسے لگادیا۔