بجلی گئی تو میں نے بیگم سے کہا کہ باہر گلی والا بلب بند کردو ہمیں اسے جلائے رکھنے سے کیا فائدہ ہونا ہے اور ویسے بھی یو پی ایس کا بیک اپ اب پہلے کی نسبت کم ہوتا جارہا ہے۔ خوش قسمتی سے بیگم نے بلا چون و چرا میری بات مان لی اور بلب بند کردیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے فرمائش کی کہ کچھ پکوڑے وغیرہ بنادو کہ بھیگے موسم میں پکوڑوں کا اپنا ہی مزہ ہے۔ بیگم نے کہا کہ گھر پر بیسن ختم ہوچکا ہے، اگر پکوڑے کھانے ہیں تو جا کر مارکیٹ سے بیسن لے آئیں۔ اب ماننے کی باری میری تھی، سو میں اٹھا اور چپل پہن کر بیسن لینے کے لیے نکل گیا۔
گلی میں پہنچ کر دیکھا کہ صرف ایک دو گھروں کے باہر ہی بلب جل رہے ہیں حالانکہ ہماری گلی کے تقریباً تمام گھروں میں یو پی ایس کی سہولت موجود ہے۔ خیر، میں اندھیرے میں ہی مارکیٹ کی جانب چل پڑا۔ میں ابھی کچھ ہی دور گیا تھا کہ میرا پاؤں گلی کے درمیان میں پڑی ہوئی ایک اینٹ سے ٹکرایا۔ پاؤں کافی زور سے ٹکرایا تھا اس لیے تکلیف بھی بہت ہوئی۔ اینٹ کو گلی کے درمیان سے ہٹاتے ہوئے میں دل میں اپنے پڑوسیوں کو گالیاں دے رہا تھا کہ کتنے کنجوس اور کمینے لوگ ہیں کہ یو پی ایس کی مدد سے ایک بلب جلائے رکھنے سے ان کی جان جاتی ہے۔
بہت اعلی اور بڑے ظرف کی بات ہے کہ خود کو سامنے رکھا
جواب دیںحذف کریں