رواں ماہ لاہور میں دو عظیم الشان بین الاقومی تقریبات منعقد ہوئیں۔ پہلی تقریب تو پانچ روزہ بین الاقوامی کتاب میلہ تھا جو 05 سے لے کر 09 فروری تک جاری رہا۔ اس میلے میں میں نے جو کچھ دیکھا وہ "کتاب میلے کی سیر" کے عنوان سے پہلے ہی اس بلاگ پر پیش کیا جاچکا ہے۔ دوسری تقریب سہ روزہ بین الاقوامی لاہور ادب میلہ تھا جو 20 سے 22 فروری تک جاری رہا۔ اب اس کا احوال بھی سن لیجئے!
میں چونکہ پیدائشی طور پر خوش فہم واقع ہوا ہوں، لہٰذا تقریب کے پہلے روز میں خود کو یہ تسلی دے کر مال روڈ پر واقع الحمرا آرٹس سنٹر لے گیا کہ گزشتہ دو برسوں میں تو چلو ناسمجھی کی وجہ سے ادب میلے کا انعقاد ٹھیک طرح سے نہیں ہو پایا ہوگا لیکن اس بار انتظامیہ کسی حد تک پختہ کار ہوچکی ہوگی، اور ان لوگوں نے سوچا ہوگا کہ اس بار لاہور ادب میلے کے نام سے ہونے والی اس تقریب میں لاہور اور ادب کو بھی کچھ نہ کچھ جگہ دے ہی دی جائے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اس بار بھی بہت سے لاہور کے عاشقوں اور ادب کی پجاریوں کی طرح میرے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے کیونکہ الحمرا سنٹر میں سخت ترین حفاظتی حصار کے اندر ایک خاص معاشرتی طبقے نے میلہ تو بپا کررکھا تھا لیکن اس میں لاہور اور ادب کہیں بھی نہیں تھے۔
یہ سب منظر دیکھ کر حالت تو میری بگڑ رہی تھی مگر میں نے ہمت نہ ہاری اور ایک ایک کر کے الحمرا کے پانچوں ہال دیکھ مارے، لیکن واقعی وہاں تو کچھ بھی نہیں تھا۔ آنکھیں مل مل کر سامنے لگے ہوئے بینروں کو غور سے پڑھا جن پر جلی حروف میں Lahore Literary Festival کے الفاظ درج تھے۔ چند لمحے کے لیے تو مجھے یوں لگا کہ شاید میں لاہور اور لٹریری کا معانی و مفاہیم سے واقف نہیں ہوں۔ پھر خیال آیا کہ ان دو سیدھے سادے الفاظ کے ایسے بھلا کون سے معانی ہوسکتے ہیں جن سے میں واقف نہیں ہوں۔ فوراً جیب میں ہاتھ ڈال کر موبائل فون نکالا اور اس پر یکے بعد دیگرے یہ دونوں الفاظ لکھ کر انٹرنیٹ کی مدد سے ان کے معانی تلاش کرنے کی کوشش کی۔ مجھے شدید حیرت ہوئی کہ دونوں الفاظ کے معانی بعینہٖ وہی تھی جو میرے ذہن میں پہلے سے موجود تھے۔
الحمرا سنٹر کے سبزہ زاروں اور صحن میں ادھر ادھر گھوم پھر کر دیکھا کہ کوئی اپنا ہم زبان مل جائے مگر "یہ نہ تھی ہماری قسمت۔۔۔" پھر سوچا کہ پیدائش سے لے کر اب تک زندگی کے بتیس چونتیس برس اسی شہر کی گلیوں، محلوں میں اور سڑکوں پر گزارے ہیں اور اسی مال روڈ پر آوارہ گردی کرتے بھی چودہ پندرہ برس ہونے کو ہیں تو الحمرا سنٹر میں حسبِ معمول کوئی نہ کوئی جاننے والا تو ضرور ملنا چاہیے لیکن ایک چہرہ بھی شناسا نہ ملا۔ میلے میں شرکت کرنے والوں کے لباس اور زبان پر غور کیا تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میں اپنے لاہور میں نہیں بلکہ کسی اور شہر میں ہوں۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ میں اس تقریب کو میلہ بھی رعایتاً ہی کہہ رہا ہوں ورنہ وہاں میلے کا بھی کوئی رنگ نہیں تھا۔
خیر، میں خود کو ملامت کرتا ہوا سخت حفاظتی حصار میں منعقد ہوتی اس عجیب و غریب تقریب سے نکلا اور اس عزم کے ساتھ گھر کی راہ لی کہ اگلے تین روز تک الحمرا کی طرف منہ بھی نہیں کرنا کہ اس تماشے کی وجہ سے کہیں میں لاہور اور ادب سے متنفر ہی نہ ہوجاؤں!
میں نے پہلے میلے کا حال بھی پڑھا اور یہ بھی پڑھ لیا ۔ لیکن میں افسردہ ہونے کی بجائے پڑھنے کے دوران مُسکراتا رہا ۔ میلے پر نہیں ۔ آپ پر اور اپنے آپ پر کہ بٹ صاحب بھی اپنے جیسے بیوقوف آدمی ہیں ۔ دورِ جدید کے بُلند بانگ دعووں میں حقیقت تلاش کرتے ہیں ۔ بھا جی ایہہ دنیا میرے تہاڈے واسطے نئیں اے ۔ اَیس دُنیا دا باوا آدم ای نرالا اے ۔ جیہڑا تہاڈی سمجھ وِچ کس طراں آ جائے جے میری سمجھ وچ پچھلے وی سالاں توں نئیں آیا ؟
جواب دیںحذف کریںبس میری ایک بات یاد رکھیئے کہ آپ اپنا آپ قائم رکھیئے اور اس جدید رنگ سے بچتے رہیئے
آپ کی تحریر کے ابتداء ہی سے اندازہ ہوگیا کہ وہاں ادب میلہ نہیں تھا، مگر وہاں ادب میلے کے نام پر کیا ہورہا تھا اور کون ، کس قسم کے لوگ آئے ہوئے تھے؟
جواب دیںحذف کریںبہت اعلیٰ تحریر
جواب دیںحذف کریںادب اب آپ کو پیروں فقیروں کے ہاں ہی ملے گا