تازہ ترین
کام جاری ہے...
منگل، 14 جنوری، 2014

امیر خسروؒ کی مشہور نعت (نمی دانم چہ منزل بود)

حکیم ابوالحسن یمین الدین المعروف امیر خسرو دہلویؒ کی مشہور و معروف نعت 'نمی دانم چہ منزل بود' کا مقطع یقیناً آپ نے سنا ہوگا۔ یہاں اس خوبصورت ہدیۂ عقیدت کے اشعار مع ترجمہ پیش کیے جارہے ہیں۔ ان گلہائے ارادت کا اردو میں منظوم ترجمہ کرنے کی سعادت جناب مسعود قریشی نے حاصل کی۔ ہر شعر کے نیچے منظوم ترجمہ درج ہے۔

نمی دانم چہ منزل بود، شب جائے کہ من بودم
بہ ہر سو رقصِ بسمل بود، شب جائے کہ من بودم

نہیں معلوم تھی کیسی وہ منزل، شب جہاں میں تھا
ہر اک جانب بپا تھا رقصِ بسمل، شب جہاں میں تھا

پری پیکر نگارے، سرو قدے، لالہ رخسارے
سراپا آفتِ دل بود، شب جائے کہ من بودم

 
پری پیکر صنم تھا سرو قد، رخسار لالہ گوں
سراپا وہ صنم تھا آفتِ دل، شب جہاں میں تھا

رقیباں گوش بر آواز، او در ناز، من ترساں
سخن گفتن چہ مشکل بود، شب جائے کہ من بودم

عدو تھے گوش بر آواز، وہ نازاں تھا، میں ترساں
سخن کرنا وہاں تھا سخت مشکل، شب جہاں میں تھا

 
خدا خود میرِ مجلس بود اندر لا مکاں خسرو
محمدؐ شمعِ محفل بود، شب جائے کہ من بودم

خدا تھا میرِ مجلس لا مکاں کی بزم میں خسرو
محمدؐ تھے وہاں پر شمعِ محفل، شب جہاں میں تھا

پس نوشت: امیر خسرو کے کلام اور ترجمے کے لئے محمد وارث صاحب کے بلاگ صریرِ خامہ سے مدد لی گئی ہے۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں