تازہ ترین
کام جاری ہے...
اتوار، 5 جنوری، 2014

الجہاد فی الاسلام

دور جدید میں یورپ نے اپنی سیاسی اغراض کے لئے اسلام پر جو بہتان تراشے ہیں ان میں سب سے بڑا بہتان یہ ہے کہ اسلام ایک خونخوار مذہب ہے اور اپنے پیرووں کو خونریزی کی تعلیم دیتا ہے۔ اس بہتان کی اگر کچھ حقیقت ہوتی تو قدرتی طور پر اسے اس وقت پیش ہونا چاہئے تھا جب پیروانِ اسلام کی شمشیر خاراشگاف نے کرۂ ارض میں ایک تہلکہ برپا کررکھا تھا اور فی الواقع دنیا کو یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ شاید ان کے یہ فاتحانہ اقدامات کسی خونریز تعلیم کا نتیجہ ہوں۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس بہتان کی پیدائش آفتابِ عروجِ اسلام کے غروب ہونے کے بہت عرصہ بعد عمل میں آئی۔ اس کے خیالی پتلے میں اس وقت روح پھونکی گئی جب اسلام کی تلوار تو زنگ کھا چکی تھی مگر خود اس بہتان کے مصنف یورپ کی تلوار بے گناہوں کے خون سے سرخ ہورہی تھی اور اس نے دنیا کی کمزور قوموں کو اس طرح نگلنا شروع کردیا تھا جیسے کوئی اژدہا چھوٹے چھوٹے جانوروں کو ڈستا اور نگلتا ہو۔ اگر دنیا میں عقل ہوتی تو وہ سوال کرتی کہ جو لوگ خود امن و امان کے سب سے بڑے دشمن ہوں، جنہوں نے خود خون بہا بہا کر زمین کے چہرے کو رنگین کردیا ہو، جو خود دوسری قوموں پر ڈاکے ڈال رہے ہوں، آخر انہیں کیا حق ہے کہ اسلام پر وہ الزام عائد کریں جس فرد جرم خود ان پر لگنی چاہئے؟ کہیں اس تمام مؤرخانہ تحقیق و تفتیش اور عالمانہ بحث و اکتشاف سے ان کا یہ منشاء تو نہیں کہ دنیا کی اس نفرت و ناراضی کے سیلاب کا رخ اسلام کی طرف پھیردیں جس کے خود ان کی اپنی خونریزیوں کے امنڈ کر آنے کا اندیشہ ہے؟ لیکن انسان کی یہ کچھ فطری کمزوری ہے کہ وہ جب میدان میں مغلوب ہوتا ہے تو مدرسہ میں بھی مغلوب ہوتا ہے، جس کی تلوار سے شکست کھاتا ہے اس کے قلم کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتا اور اسی لئے ہر عہد میں دنیا پر انہی افکار و آراء کا غلبہ رہتا ہے جو تلوار بند ہاتھوں کے قلم سے پیش کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ اس مسئلہ میں بھی دنیا کی آنکھوں پر پردہ ڈالنے میں یورپ کو پوری کامیابی ہوئی اور غلامانہ ذہنیت رکھنے والی قوموں نے اسلامی جہاد کے متعلق اس کے پیش کردہ نظریہ کو بلا ادنیٰ تحقیق و تحفص اور بلا ادنیٰ غور و خوض اس طرح قبول کرلیا کہ کسی آسمانی وحی کو بھی اس طرح قبول نہ کیا ہوگا۔

گذشتہ اور موجودہ صدی میں مسلمانوں کی طرف سے بارہا اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے اور اس کثرت سے اس موضوع پر لکھا جاچکا ہے کہ اب یہ ایک فرسودہ اور پامال سا مضمون معلوم ہوتا ہے۔ مگر اس قسم کی جوابی تحریرات میں میں نے اکثر یہ نقص دیکھا ہے کہ اسلام کے وکلاء مخالفین سے مرعوب ہو کر خود بخود ملزموں کے کٹہرے میں جا کھڑے ہوتے ہیں اور مجرموں کی طرح صفائی پیش کرنے لگتے ہیں۔ بعض حضرات نے تو یہاں تک کیا ہے کہ اپنے مقدمہ کو مضبوط بنانے کے لئے سرے سے اسلام کی تعلیمات اور اس کے قوانین ہی میں ترمیم کر ڈالی اور شدت مرعوبیت میں جن جن چیزوں کو انہوں نے اپنے نزدیک خوفناک سمجھا انہیں ریکارڈ پر سے بالکل غائب کردیا تاکہ مخالفین کی نظر اس پر نہ پڑسکے۔ لیکن جن لوگوں نے ایسا کمزور پہلو اختیار نہیں کیا ان کے ہاں بھی کم از کم یہ نقص ضرور موجود ہے کہ وہ جہاد و قتال کے متعلق اسلامی تعلیمات کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان نہیں کرتے اور بہت سے پہلو اس طرح تشنہ چھوڑ جاتے ہیں کہ ان میں شک و شبہ کی بہت کچھ گنجائش باقی رہتی ہے۔ غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے اصلی ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ اور قتال بغرض اعلائے کلمۂ الٰہی کے متعلق اسلام کی تعلیمات اور اس کے قوانین کو بے کم و کاست اسی طرح بیان کردیا جائے جس طرح وہ قرآنِ مجید، احادیثِ نبویؐ اورکتبِ فقہ میں درج ہیں۔ ان میں سے کسی چیز کو نہ گھٹایا جائے اور نہ اسلام کے اصلی منشاء اور کی تعلیم کی روح کو بدلنے کی کوشش کی جائے۔ میں اس طریقہ سے اصولی اختلاف رکھتا ہوں کہ ہم اپنے عقائد و اصول کو دوسروں کے نقطۂ نظر کے مطابق ڈھال کر پیش کریں۔ دنیا کا کوئی ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں تمام لوگ ایک نقطۂ نظر پر متفق ہوں۔ ہر جماعت اپنا ایک الگ نقطۂ نظر رکھتی ہے اور اسی کو صحیح بھی سمجھتی ہے، کل حزب بما لدیھم فرحون۔ پس ہم دوسروں کے نقطۂ نظرکی رعایت سے اپنے اصول و عقائد کو خواہ کتنا ہی رنگ کر پیش کریں یہ ناممکن ہے کہ تمام مختلف الخیال گروہ ہم سے متفق ہوجائیں اور سب کو ہمارا وہ مصنوعی رنگ پسند ہی آجائے۔ اس لئے زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے دین کے عقائد اور احکام کو، اس کی تعلیمات اور اس کے قوانین کو ان کے اصلی رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کردیں اور جو دلائل ہم ان کے حق میں رکھتے ہیں انہیں بھی صاف صاف بیان کردیں، پھر یہ بات خود لوگوں کی عقل پر چھوڑ دیں کہ خواہ وہ انہیں قبول کریں یا نہ کریں۔ اگر قبول کریں تو زہے نصیب، نہ قبول کریں تو ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں۔ یہ دعوت و تبلیغ کا صحیح اصول ہے، جسے ہمیشہ سے اربابِ عزم لوگوں نے اختیار کیا ہے اور خود انبیاء علیہم السلام نے بھی اسی پر عمل کیا ہے۔

میں ایک عرصہ سے اس ضرورت کو محسوس کر رہا تھا، مگر احساسِ ضرورت سے بڑھ کر عمل کی جانب کوئی اقدام نہ کر سکتا تھا، کیونکہ اس کام کے لئے بڑی فرصت درکار تھی اور فرصت ہی ایک ایسی چیز ہے، جو کسی اخبار نویس کو میسر نہیں آتی۔

لیکن دسمبر 1926ء کی آخری تاریخوں میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے مجھے مشکلات سے قطع نظر کرکے اقدامِ عمل پر مجبور کردیا۔ یہ واقعہ شدھی کی تحریک کے بانی سوامی شردھانند کے قتل کا واقعہ تھا، جس سے جہلاء اور کم نظر لوگوں کو اسلامی جہاد کے متعلق غلط خیالات کی اشاعت کا ایک نیا موقع مل گیا، کیونکہ بدقسمتی سے ایک مسلمان اس فعل کے ارتکاب کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور اخبارات میں اس کی جانب یہ خیالات منسوب کئے گئے تھے کہ اس نے اپنے مذہب کا دشمن سمجھ کر سوامی کو قتل کیا ہے اور یہ کہ اس نیک کام کے کرنے سے جنت کا امیدوار ہے ۔ حقیقت کا علم تو خدا کو ہے، مگر منظرِ عام پر جو کچھ آیا وہ یہی واقعات تھے۔ ان کی وجہ سے عام طور پر اسلام کے دشمنوں میں ایک ہیجان پیدا ہوگیا۔ انہوں نے علمائے اسلام کے اعلانات اور اسلامی جرائد اور عمائدِ ملت کی متفقہ تصریحات کے باوجود اس واقعہ کو اس کی طبعی حدود تک محدود رکھنے کے بجائے تمام امتِ مسلمہ کو بلکہ خود اسلامی تعلیمات کو اس کا ذمہ دار قرار دینا شروع کردیا اور علانیہ قرآنِ کریم پر اس قسم کے الزامات عائد کرنے لگے کہ اس کی تعلیم نے مسلمانوں کو ایسا متعصب بنادیا ہے کہ وہ ہر کافر کو گردن زدنی سمجھتے ہیں اور اسے قتل کرکے جنت میں جانے کی امید رکھتے ہیں۔ بعض دریدہ دہنوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ دنیا میں جب تک قرآن کی تعلیم موجود ہے، امن قائم نہیں ہوسکتا، اس لئے تمام عالم انسانی کو اس تعلیم کے مٹانے کی کوشش کرنا چاہئے۔ ان غلط خیالات کی نشرو اشاعت اس کثرت کے ساتھ کی گئی کہ صحیح الخیال لوگوں کی عقلیں بھی چکرا گئیں اور گاندھی جی جیسے شخص نے، جو ہندو قوم میں سب سے بڑے صائب الرائے آدمی ہیں، اس سے متاثر ہو کر بتکرار اس خیال کا اظہار کیا کہ ”اسلام ایسے ماحول میں پیدا ہوا ہے، جس کی فیصلہ کن طاقت پہلی بھی تلوار تھی اور آج بھی تلوار ہے۔“

اگرچہ یہ تمام خیالات کسی تحقیق اور علمی تفحص پر مبنی نہ تھے، بلکہ ”طوطی“ کی طرح وہی سبق دہرایا جارہا تھا، جو ”استادِ ازل“ نے سکھادیا تھا، مگر ایک غیر معمولی واقعہ نے ان اوہام میں حقیقت کا رنگ پیدا کردیا تھا، جس سے ناواقف لوگ آسانی کے ساتھ دھوکا کھا سکتے تھے۔ چونکہ ایسی عام بدگمانیاں اشاعتِ اسلام کی راہ میں ہمیشہ حائل ہوتی ہیں اور ایسے ہی مواقع ہوتے ہیں، جن میں اسلام کی صحیح تعلیم کو زیادہ صفائی کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ غبار چھنٹ جائے اور آفتابِ حقیقت زیادہ روشنی کے ساتھ طلوع ہو، اس لئے میں نے فرصت کا انتظار چھوڑ کر اپنے اسی قلیل وقت میں جو ترتیبِ اخبار سے باقی بچتا تھا، پیشِ نظر مضمون کی تحریر و تسوید کا کام شروع کردیا اور ساتھ ہی ساتھ اخبار ”الجمعیة“ کے کالموں میں اس کی اشاعت بھی شروع کردی۔ ابتداً محض ایک مختصر مضمون لکھنے کا ارادہ تھا مگر سلسلۂ کلام چھڑنے کے بعد بحث کے اس قدر گوشے سامنے آتے چلے گئے کہ اخبار کے کالموں میں ان کا سمانا مشکل ہوگیا، اس لئے مجبوراً 23/24 نمبر شائع کرنے کے بعد میں نے اخبار میں اس کی اشاعت بند کردی اور اب اس پورے سلسلہ کو مکمل کرکے کتابی صورت میں پیش کررہا ہوں۔ اگرچہ یہ کتاب مبحث کے اکثر پہلوؤں پر حاوی ہے، لیکن پھر بھی مجھے افسوس ہے کہ وقت کی کمی نے بہت سے مباحث کو تشنہ رکھنے پر مجبور کیا ہے اور جن مضامین کی توضیح کے لئے ایک مستقل باب کی ضرورت تھی، انہیں ایک ایک دودو فقروں میں ادا کرنا پڑا ہے۔ اس کتاب میں میں نے خصوصیت کے ساتھ اس امر کا التزام رکھا ہے کہ کہیں اپنے یا دوسرے لوگوں کے ذاتی خیالات کو دخل نہیں دیا بلکہ تمام کلی و جزوی مسائل خود قرآن مجید سے اخذ کر کے پیش کئے ہیں اور جہاں کہیں ان کی توضیح کی ضرورت پیش آئی ہے، احادیثِ نبویؐ، معتبر کتبِ فقہ اور صحیح و مستند تفاسیر سے مدد لی ہے تاکہ ہر شخص کو معلوم ہوجائے کہ آج دنیا کا رنگ دیکھ کر کوئی نئی چیز پیدا نہیں کی گئی ہے بلکہ جو کچھ کہا گیا ہے، سب اللہ اور اس کے رسولؐ اور آئمۂ اسلام کے ارشادات پر مبنی ہے۔

میں تمام ان غیر مسلم حضرات سے، جو تعصب کی بناء پر اسلام سے اندھی دشمنی نہیں رکھتے، درخواست کرتا ہوں کہ اس کتاب میں اسلام کی اصلی تعلیمِ جنگ کا مطالعہ کریں اور اس کے بعد بتائیں کہ انہیں اس تعلیم پر کیا اعتراض ہے۔ اگر اس کے بعد بھی کسی شخص کو کچھ شک باقی ہو تو میں اسے رفع کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔

('دیباچہ' الجہاد فی الاسلام از سید ابوالاعلیٰ مودودی)

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں