تازہ ترین
کام جاری ہے...
اتوار، 14 دسمبر، 2014

میرے بہترین دو گھنٹے


سرکاری ملازمت کی وجہ سے مجھے جو کچھ ناپسندیدہ کام کرنے پڑتے ہیں انہی میں سے ایک کام پر مجھے ان دنوں مامور کیا گیا ہے۔ میرے چھوٹے بیٹے عبدالرحمٰن کے شدید علالت کے باعث اسپتال میں ہونے کے باوجود میں صبح سے شام تک بےتکان اس کام کی انجام دہی میں لگا رہا کیونکہ میرے لیے یہ ایک نیا تجربہ ہے جس کی وجہ سے مجھے سرکاری نظام کے بہت سے معاملات کو سمجھنے میں مدد مل رہی ہے۔ یہ کام کیا ہے اور اس کی وجہ سے میں نے کیا کچھ جانا ہے اس پر میں کسی اور وقت بات کروں گا کیونکہ یہ ایک طویل موضوع ہے اور ابھی دامنِ وقت میں اتنی گنجائش نہیں کہ میں اس موضوع پر بات کرسکوں۔

خیر، گزشتہ روز کام کے دوران اتفاق سے دو گھنٹے کا وقفہ مل گیا۔ میں چونکہ کلمہ چوک کے قریب تھا، لہٰذا سوچا کہ گھر جانے کی بجائے 'ریڈنگز' کا رخ کیا جائے کہ پچھلے تقریباً دو ماہ سے ادھر جانے کا موقع ہی نہ مل پایا تھا۔ کلمہ چوک پر انجینئروں کی بنائی ہوئی بھول بھلیوں سے گزر کر میں چند ہی منٹ میں ریڈنگز پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر پہلے کچھ الماریوں پر سرسری سی نظر ڈالی اور پھر فلسفے کے شعبے میں جا کر برٹرنڈ رسل کی History of Western Philosophy لے کر فرش پر پڑی گدی پر بیٹھ گیا۔ آدھ پون گھنٹے تک جناب رسل کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیے بیٹھا رہا، پھر اٹھ کر کتاب رکھی اور دکان سے باہر نکل گیا کہ ایک دوست مجھے ملنے کے لیے آنے والے تھے۔ ٹیلیفون پر رابطہ ہوا تو پتہ چلا کہ انہیں مزید ایک گھنٹہ لگ سکتا ہے۔ میں پھر دکان کے اندر چلا گیا۔

اندر جا کر میں کسی اجنبی شہر میں نووارد کی طرح ادھر ادھر گھومنے پھرنے لگا۔ مختلف شعبوں کی کتابوں کے ساتھ تاکا جھانکی کے دوران ایوب خاور کی 'محبت کی کتاب' پر نظر پڑی۔ کتاب کا سرورق اور اس پر لکھا ہوا گلزار کا جملہ اچھا لگا تو میں نے کتاب اٹھائی اور غیرارادی طور پر اسے پڑھنا شروع کردیا۔ ایوب خاور کا پونے دو سو صفحات کو محیط یہ منظوم ناول اس حد تک دلچسپ، مسحور کن اور عمدہ تھا کہ میرا اسے چھوڑنے کو جی ہی نہ چاہا۔ پڑھنا شروع کیا تو پھر پڑھتا ہی چلا گیا۔ سنیچر کے روز ریڈنگز میں لوگوں کا ہجوم معمول سے زیادہ ہوتا ہے اور اپنے انتہائی خوبصورت بچوں کے ساتھ ایسی بہت سی بیبیاں بھی آئی ہوتی ہیں جنہیں مونی محسن 'سوشل بٹرفلائیز' کہتی ہیں۔

خیر، 'محبت کی کتاب' ہاتھ میں تھی اور میں دنیا و مافیہا سے بےخبر بس اسے پڑھتا چلا جارہا تھا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ایوب خاور نے ایک اچھے کہانی کار اور منجھے ہوئے شاعر کی طرح شروع سے آخر تک ہر مصرعے اور لفظ کو اس خوبصورتی سے چنا اور برتا ہے کہ قاری کا دھیان بھٹکنے کا کوئی امکان ہی نہیں رہتا۔ کتاب کا آخری صفحہ پڑھ کر کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر دوڑائی تو میرا دو گھنٹے کا وقفہ ختم ہوچکا تھا لیکن 'محبت کی کتاب' نے دل کو کچھ ایسا سرشار کردیا تھا کہ یوں لگا جیسے گزشتہ تین چار ماہ سے ذہن کے دریچوں پر پڑی بیزاری اور اضطراب کی گرد ایوب خاور کے الفاظ کی پھوہار سے دھل گئی ہو۔

'محبت کی کتاب' کے مصنف کو زیادہ تر لوگ ٹیلیویژن ڈراموں کے تجربہ کار ڈائریکٹر اور ایک اچھے شاعر کے طور پر جانتے ہیں۔ تاہم ان کا یہ ناول پڑھا جائے تو گلزار کی اس بات پر یقین آجاتا ہے کہ 'ایوب خاور نے وہ کام کیا ہے جو صرف وہی کرسکتا تھا۔' کہانی بیان کرتے ہوئے ایوب خاور نے جس بھلے انداز میں پنجابی اور اردو کے امتزاج سے لسانی ترکیبات بنائی اور استعمال کی ہیں، اس کا حقیقی لطف وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو لسانی تشکیلات کے 'کھیل' سے دلچسپی رکھتے ہیں اور ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والی مذکورہ دونوں  زبانوں کے ملاپ سے وجود میں آنے والی ترکیبات کی چاشنی سے واقف ہیں۔ علاوہ ازیں، 'کوڈ سوئچنگ' کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے انگریزی کے الفاظ و تراکیب کو جس انداز سے برتا گیا ہے وہ مذکورہ ناول کے موجودہ دور سے متعلق ہونے پر دال ہے۔

مصنف نے اس ناول میں صرف محبت کی ایک کہانی ہی بیان نہیں کی بلکہ ہمارے ہاں معاشرتی ناہمواریوں کی جو مختلف النوع شکلیں پائی جاتی ہیں انہیں بھی موضوعِ بحث بنایا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو 'محبت کی کتاب' ایک بھرپور ناول ہے جس میں ہمارے معاشرے کے فکری ڈھانچے اور دہرے رویوں سے پیدا شدہ مسائل کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ ہماری معاشرتی دو عملیوں کے حوالے سے کتابوں میں موجود ایسی تنقیدی باتیں حقیقی زندگی کا حصہ اور صحت مند و نتیجہ خیز مباحث کا موضوع اسی وقت بن سکتی ہیں جب 'محبت کی کتاب' جیسی تصنیفات کتب فروشوں کی دکانوں سے نکل کر لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچیں اور ان کتابوں میں بیان کردہ فکر انگیز نکات ہماری اجتماعی ذہنی ساخت  و پرداخت پر اثر انداز ہوں۔

3 تبصرے:

  1. ناول کے متعلق تشنگی رکھ کر میری تشنگی بڑھا دی آپ نے

    جواب دیںحذف کریں
  2. اب مسئلہ یہ ہے کہ میرے شہر میں تو "ریڈنگز" ہی نہیں تو محبت کی کتاب کہاں سے ملے گی :(

    جواب دیںحذف کریں
  3. عبدالرحمٰن کی طبیعت اب کیسی ہے؟ اللہ تعالیٰ اسے مکمل صحت اور لمبی عمر دے۔۔۔آمین
    باقی سرکاری کام کاج کے تجربات پر تحریر کا انتظار رہے گا۔
    ویسے بڑی محبت سے ”محبت کی کتاب“ محبت بھری فہرست میں شامل کر لی ہے۔ جلد ہی پڑھیں گے۔ :-)

    جواب دیںحذف کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں