تازہ ترین
کام جاری ہے...
پیر، 31 اگست، 2015

جیون کہیں جسے۔۔۔


بچپن، لڑکپن، جوانی، ادھیڑپن اور بڑھاپا، یہ وہ مختلف مراحل ہیں، جن سے گزر کر ہر عام آدمی اپنی زندگی کے سفر کو طے کرتا ہے۔ سفرِ زیست میں کئی ایک کٹھن اور دشوار مرحلے بھی آتے ہیں اور بہت سے سہل اور دلآویز مواقع بھی۔ یہ سب زندگی کا حصہ ہیں اور زندگی کی رنگینیاں تلخ و شیریں کے اس حسین امتزاج سے ہی عبارت ہیں۔ زندگی کے جملہ مراحل میں جوانی سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ یہ زیست کے اس سنہری اور یادگار کا دور نام ہے جب انسان کی رگوں میں خون نہیں بلکہ بجلیاں گردش کررہی ہوتی ہیں۔ یہی وہ عمر ہوتی ہے، جب کمزور سے کمزور انسان بھی مشکل سے مشکل چیلنج کو قبول کرلیتا ہے۔ درحقیقت جوانی ہی طاقت و تندرستی کا دوسرا نام ہے۔ سنتے آئے ہیں کہ جوانی دیوانی ہوتی ہے اور جوانی میں کسی بھی کام کو انجام دینا مشکل نہیں ہوا کرتا۔ ایامِ شباب میں دنیا کو راتوں رات فتح کرنے لینے کا جوش و جذبہ تو ہر کسی میں بیدار ہوتا ہے، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اپنے اس خواب کو صرف وہی لوگ شرمندۂ تعبیر کرپاتے ہیں جن میں ابنِ نیل کا حوصلہ، ابراہیم کی قوت، اسمٰعیل کی فرمانبرداری، سکندر کا جنون، عیسیٰ کا زہد، خالد کا عزم اور حسین کا ارادہ ہوتا ہے۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں، جو اپنے مضبوط ارادوں اور دست و بازو سے ہواﺅں کا رخ اور طوفانوں کا منہ پھیر دیا کرتے ہیں۔ 

لڑکپن کی دہلیز سے نکل کر جب کوئی شخص جوانی کی چوکھٹ پر قدم رکھتا ہے تو اس جسم اور ذہن میں واضح تبدیلیاں رونما ہورہی ہوتی ہیں۔ جوانی، انسان کی کتابِ زیست پر ایسے انمٹ نقوش مرتب کرجاتی ہے جن کا مٹایا جانا مشکل ہی نہیں بلکہ کسی حد تک ناممکن بھی ہوا کرتا ہے۔ یہی وہ دور ہوتا ہے جب ایک انسان کے جسم کے ساتھ ساتھ اس کے عقائد و نظریات بھی پروان چڑھ رہے ہوتے ہیں۔ جوانی میں انسانی ذہن اس لوہے کی مانند ہوتا ہے جسے دہکتی ہوئی بھٹی سے نکالا گیا ہو، لہٰذا اگر عمر کے اس حصے میں کسی شخص کے خوابوں، خیالوں، خواہشوں، امیدوں اور امنگوں کے گرم لوہے کواثبات کے ہتھوڑے سے انتھک محنت اور جہدِ مسلسل کے سانچے میں ڈھال لیا جائے تو دنیا کی کوئی ایسی طاقت نہیں جو کامیابی و کامرانی کو اس کا مقدر بننے سے روک سکے۔ یہ کہنا ہرگز مبالغہ نہ ہوگا کہ اس خطۂ ربع مسکون پر آج جو اقوام حکومت کررہی ہیں ان کی لازوال کامیابیوں کے پیچھے پڑھے لکھے، مہذب اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی شبانہ روز محنت، مشقت اور جدوجہد کارفرما تھی۔ ان لوگوں نے وقت کا صحیح استعمال کرنا سیکھ لیا ہے، اسی لئے آج وہ ساری دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں۔

یاد رکھئے! وقت کبھی کسی کا انتظار نہیں کیا کرتا، وہ تو گزرتا ہے اور گزرتا ہی چلا جاتا ہے۔ ٹھہراﺅ وقت کی فطرت میں ہی نہیں ہے۔ زمانے کی بوڑھی آنکھ ہم سے قبل بہت سے لوگوں کو دیکھ چکی ہے اور ہمارے بعد بہت سوں کو دیکھے گی۔ ایک عظیم فلسفی کا قول ہے کہ ”اگر تم حیات جاودانی کے امین بننا چاہتے ہو تو کچھ ایسا لکھو جو پڑھنے کے قابل ہو یا کچھ ایسے کام کرو جو لکھنے کے قابل ہوں۔“ توکیوں نہ ہم کچھ ایسا کر جائیں جس سے ہم آنے والے لوگوں کی یادوں اور دعاﺅں کا حصہ بن کر رہ جائیں۔ کچھ ایسا جو ہمیں مرنے کے بعد بھی زندہ رکھے۔ایک انگریزی کہاوت کے مطابق ابھی تاخیر نہیں ہوئی بلکہ ابھی تو کرنے کے بہت سے کام باقی پڑے ہیں۔ توکیوں نہ آج اور ابھی سے ہم اپنی ذات کے ساتھ یہ عہد کر لیں کہ ہم بھی اس جیون میں کچھ ایسا کر جائیں گے جس سے آنے والی نسلیں ہمیں یاد رکھیں۔

عزیزانِ من! جیون گزارنا بڑی بات نہیں ہے بلکہ بڑی بات تو یہ ہے کہ کسی نے جیون کس طرح گزارا۔ ایسے بھی لوگ اس کرۂ ارض پر موجود ہیں جو اس حیاتِ مستعار کو ”عہدِ الست کے سانچے میں ڈھالے ہوئے ہیں اور ساڑھے چھ ارب کی آبادی میں آپ کو ایسے بھی بہت سے مل جائیں گے جو عزازیل کے دامِ ہمرنگِ زمیں کا نخچیر بن کر اس دنیائے فانی کو ہی سب کچھ مانے بیٹھے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ ہم تمام عمر زندگی کے ساتھ شرط باندھ کر دوڑتے ہیں اور آخر میں پتا چلتا ہے کہ ہم دونوں ہار گئے اور موت جیت گئی۔ ایسا نہ ہو کہ ایک مرتبہ پھر سے موت بازی لے جائے۔ سو، جیون کو گزارئیے! قبل ازیں کہ جیون ہی آپ کو گزار دے۔۔۔


پس نوشت: یہ انشائیہ آج سے تقریباً دس برس پہلے اس وقت لکھا گیا تھا جب میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں ایم اے اردو کے پہلے سال کا طالبعلم تھا اور اگر میری یادداشت دھوکہ نہیں دے رہی تو یہ اس وقت ہمارے یونیورسٹی گزٹ میں شائع ہوا تھا۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں