تازہ ترین
کام جاری ہے...
اتوار، 27 مارچ، 2016

مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں، تری رہبری کا سوال ہے


جنید جمشید پر حملے کی ویڈیو مجھے ایک دوست کی وساطت سے رات دو بجے بذریعہ واٹس ایپ موصول ہوئی۔ میں جاگ رہا تھا کیونکہ اس وقت میرے محلے میں ایک جگہ میلاد کی محفل جاری تھی جس میں باقاعدہ آلاتِ موسیقی استعمال کیے جارہے تھے اور بڑے بڑے اسپیکروں کی وجہ سے کافی فاصلے کے باوجود آواز میرے مکان تک آرہی تھی۔ میں اس وقت اس سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ میرے مکان کے دور ہونے کے باوجود اگر "خیر و برکت" مجھ تک پہنچ رہی ہے تو جن کے گھر اس جگہ کے اردگرد واقع ہیں وہ کس حد تک "فیض یاب" ہورہے ہوں گے اور اگر کوئی شخص کسی نہ کسی وجہ سے پہلے ہی بےچین اور بیزار ہے تو یہ "سمعی فیضان" اس کے لیے کس حد تک اثر انگیز ہوگا۔ خیر، میں نے ویڈیو دیکھی، پہلے تو کچھ سمجھ نہ آیا۔ پھر اس دوست کی طرف سے وضاحت کی گئی کہ یہ ویڈیو کیا اور کہاں کی ہے۔ مجھے بےحد افسوس اور تشویش ہوئی اور کچھ سمجھ نہ آیا کہ اس واقعے پر کس طرح کے ردعمل کا اظہار کیا جائے۔

میرا ماننا یہ ہے کہ حملہ کس پر ہوا، کیوں ہوا، کرنے والے کون تھے، ان کا اصل مقصد کیا تھا، حملہ آوروں کا محرک کون تھا، یہ سب باتیں اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں لیکن آپ یہ دیکھئے کہ قومی سلامتی کو لاحق شدید خطرات کے اس نازک ترین دور میں ہمارے سیکیورٹی ادارے کیسے مستعد اور چوکنا ہیں کہ ملک کے دارالحکومت کے ہوائی اڈے پر یہ سب کچھ ہوا اور سیکیورٹی اہلکار ایسے بےنیاز رہے کہ گویا کوئی معمول کی کارروائی ہو۔ قومی سلامتی کے پیش نظر سیکیورٹی اداروں کا بجٹ جتنا بڑھ رہا ہے ان اداروں سے وابستہ افراد کی بےنیازی میں بھی اتنا ہی اضافہ ہورہا ہے۔ اگر قومی دارالحکومت کے ہوائی اڈے پر حفاظتی اقدامات کا یہ حال ہے تو خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ ہمارے شہر، دیہات، قصبے، کوچے اور قریے کس حد تک محفوظ ہیں؟

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں، تری رہبری کا سوال ہے

میں کئی حوالوں سے جنید جمشید کا ناقد ہوں مگر یہ واقعہ غیر مشروط طور پر انتہائی مذمت کے قابل ہے۔ واقعے میں ملوث افراد نے اس حرکت سے اپنی طرف سے عاشقانِ رسولؐ ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے اس شدت پسندانہ اقدام سے وہ جس مقدس ہستی سے عشق ثابت کرنا چاہ رہے تھے وہ خود سراپا رحم و کرم تھی۔ پاکستان میں اپنے اندر کی وحشت اور جنون کو عشقِ رسولؐ جیسے مقدس جذبے کے لبادے میں پیش کرنے کی یہ پہلی یا آخری کوشش نہیں ہے۔ قبل ازیں بھی ایسے کئی واقعات پیش آچکے ہیں جن میں عشقِ رسولؐ کے دعویداروں نے ایسی حرکتیں کی ہیں جن سے اس خیال کو تقویت ملی ہے کہ پاکستانی مسلمان عقل و فہم سے عاری ایک بپھرا ہوا ہجوم ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس واقعے اور اسی نوعیت کے دیگر واقعات سے پاکستان اور اس کی اسلامی اساس کوئی فائدہ پہنچنے کی بجائے الٹا نقصان ہی ہوا ہے۔

میں ریاستی نظام کو مذہب سے جوڑنے کا قائل ہوں اور اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ "جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی" لیکن انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں مذہب سے وابستہ لوگ جنون و وحشت کے اظہار کے لیے جس طرح حدیں پھلانگتے جارہے ہیں اسے دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ "عاشقی" یا "پاکستان مارکہ مسلمانی" چنگیزی پر سبقت لے گئی ہے۔ یہ بات بہت تکلیف دہ ہے کہ اسلام اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کے معاملے میں مغرب کے مالی ایندھن سے چلنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے گماشتوں اور عوامی چندوں پر چلنے والی مسجدوں کے وابستگان کے رویوں میں صرف اتنا ہی فرق نظر آتا ہے کہ ایک بائیں طرف سے گزند پہنچا رہے ہیں تو دوسرے دائیں جانب سے کچوکے لگارہے ہیں۔ ریاست جس کو اختیار حاصل ہے کہ وہ دونوں گروہوں کو لگام ڈال کر پاکستان اور اسلام کے تشخص کو مسخ ہونے سے بچائے اس کی ترجیحات اتنی مختلف ہیں کہ رہبروں کا اپنا حال رہزنوں سے بھی بدتر دکھائی دیتا ہے۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں