تازہ ترین
کام جاری ہے...
منگل، 30 جولائی، 2013

زندہ لفظ

 
روح پرور اور تخلیقی معاشرہ بےجان لفظوں کی آماجگاہ نہیں ہوتا۔ ایسے معاشرے میں اقدار کے متعلق تقریریں نہیں ہوتیں، نعرے بلند نہیں کئے جاتے۔ صداقت، نیکی اور حسن کی اقدار نعروں کی صورت میں بلند بانگ لفظوں میں ادا ہونے کے بجائے انسانی عمل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ یہی وہ صورت ہے جس میں معنی خود لفظ بن جاتے ہیں اور ایسے ہی لفظوں کو ہم ’زندہ لفظ‘ کہتے ہیں۔ اس کے برعکس غیرتخلیقی معاشرے میں قول و عمل کا تضاد لفظوں کو بےروح اور عمل کو بےجہت بنادیتا ہے۔ اس بات کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسی شے کی حرمت باقی نہیں رہتی۔ ترجیحات ختم ہوجاتی ہیں اور اعلیٰ و ادنیٰ کی تمیز مٹ جاتی ہے۔ زندگی کی سمتیں کھوجاتی ہیں۔ افراد کھوکھلے ہوجاتے ہیں۔ انسانوں کی معنوی وحدت ختم ہوجاتی ہے۔ لفظ اور معنی کا ربط ٹوٹ جاتا ہے اور زندگی کے کھوکھلے پن کو بھرنے کے لئے مجرد نعرے بروئے کار آتے ہیں جو زندگی کی لغویت اور بےمعنویت میں مزید اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ نعرے زیادہ لگنے لگیں تو سمجھ لیجئے کہ عمل رک گیا ہے۔

(سجاد باقر رضوی کے مضمون ’زندہ لفظ‘ سے اقتباس)

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں