تازہ ترین
کام جاری ہے...
جمعہ، 16 اگست، 2013

ہر شخص اپنے فرض سے غافل ہے آج کل​

آج صبح معمول کے مطابق کالج کے لئے گھر سے نکلا تو رِنگ روڈ پر تقریباً پندرہ منٹ کی مسافت طے کرنے کے بعد دیکھا کہ ایک بزرگ اور درمیانی عمر کا شخص سڑک پر زخمی حالت میں پڑے ہیں اور قریب ہی ایک موٹرسائیکل بھی گِری ہوئی ہے۔ حادثہ اس شخص کی تیز رفتاری اور بابا جی کی بےدھیانی کی وجہ سے ہوا تھا۔ دو تین افراد ان دونوں کو اٹھا کر سڑک کی ایک طرف لارہے تھے۔ میں نے فوری طور پر اپنی موٹرسائیکل کو ایک طرف لگایا اور ریسکیو 1122 والوں کو کال کی تاکہ وہ بروقت پہنچ کر زخمیوں کو اسپتال منتقل کرسکیں۔ اتنے میں ایک دو اور لوگوں نے بھی ریسکیو والوں سے رابطہ کیا کہ وہ جلدی پہنچیں کیونکہ دونوں افراد کی حالت کافی بگڑی ہوئی تھی۔ وہ درمیانی عمر کا شخص بےہوش تھا جبکہ وہ بزرگ ہوش میں تھے مگر ان کی حالت بھی کافی خراب تھی۔ ریسکیو والوں کا رسپانس ٹائم 7 منٹ ہے مگر 15 منٹ گزرنے کے باوجود بھی وہاں کوئی نہ پہنچا تو میں نے دوبارہ کال ملائی اور آپریٹر کو غصے سے کہا کہ ’جب بندے مر جائیں گے اس وقت گاڑی بھیجو گے کیا؟‘ ’سر، گاڑی نکل چکی ہے اور اب پہنچنے والی ہوگی!‘ کچھ ہی دیر میں وہاں بہت سے لوگ جمع ہوچکے تھے جن میں زیادہ تعداد ’تماشہ‘ دیکھنے والوں کی تھی۔

اتنے میں ٹریفک پولیس کا ایک وارڈن وہاں پہنچ گیا اور اس نے قریب ہی موجود اپنے سینئرز کو وائرلیس پر حادثے کی اطلاع دی تو کچھ ہی دیر میں ٹریفک پولیس کا ایک انسپکٹر کار میں وہاں پہنچ گیا۔ انسپکٹر نے آ کر کچھ دیر صورتحال کا جائزہ لیا اور لوگوں سے کہا کہ وہ اس بےہوش شخص کو سڑک کے کنارے پر تھوڑا آگے لے جائیں۔ میں نے اس کے قریب جا کر کہا کہ آپ کے پاس کار ہے تو اس کو اسپتال کیوں نہیں پہنچادیتے۔ ’اس گاڑی کو سڑک سے نیچے نہیں اتار سکتے!‘ ’چاہے بندہ مرجائے مگر کار سڑک پر کھڑی رہنی چاہئے،‘ میں غصے اور پریشانی کے عالم میں تھا۔ ’میں یہ گاڑی اس کام کے لئے استعمال نہیں کرسکتا!‘ انسپکٹر کا جواب ’قانون کے مطابق‘ تھا۔

اسی دوران میری اپنی کلائی گھڑی پر نظر پڑی تو 11 بج رہے تھے اور اب میں کسی بھی صورت ساڑھے گیارہ تک کالج نہیں پہنچ سکتا تھا۔ جیب سے موبائل نکال کر صدرِ شعبہ کو اطلاع دینا چاہی کہ میں تاخیر سے پہنچوں گا، وہ میری کلاس کو سنبھال لیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے شعبہ کے تیسرے ساتھی آج چھٹی پر ہیں اور وہ تینوں کلاسوں کے بچوں کو بیک وقت نہیں سنبھال سکتے، سو مجھے جلد از جلد کالج پہنچنا چاہئے۔ اب نہ چاہتے ہوئے مجھے بھی ان دونوں زخمیوں وہیں چھوڑ کر کالج کی طرف روانہ ہونا پڑا۔ یوں تو انہیں اسپتال پہنچانے کے لئے کئی افراد موجود تھے مگر مجھے ایک عجیب سی الجھن نے گھیر رکھا تھا۔ کالج کی طرف جاتے ہوئے دس بارہ برس قبل پڑھا ہوا قطعہ مسلسل میرے ذہن کے دریچوں میں گونج رہا تھا:
تارِ نفس ہی خنجرِ قاتل ہے آج کل​
آساں ہے موت، زندگی مشکل ہے آج کل​
کیوں حادثات روز کا معمول بن گئے​
ہر شخص اپنے فرض سے غافل ہے آج کل​

تاریخ: یکم اکتوبر 2012ء

ایک تبصرہ:

  1. بہت خوب تحریر ہے۔ اور آخر میں حاصلِ مطالعہ شعر بھی لاجواب ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں