تازہ ترین
کام جاری ہے...
جمعرات، 8 اگست، 2013

’بےاعتنائی‘

کہتے ہیں، کون کہتے ہیں یہ مجھے نہیں پتہ مگر میں نے اسی طرح سنا ہے کہ کہتے ہیں، جب گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے، اور جب میرا برا وقت آنا ہوتا ہے تو میں ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی بہت ہی خاص بات یا اہم ترین کام کرنا بھول جاتا ہوں۔ اپنے اس بھلکڑپن کی وجہ سے میں کئی بار شرمندگی کا سامنا بھی کرچکا ہوں اور مستقبل قریب و بعید میں بھی سدھرنے کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں رکھتا، بلکہ سچ پوچھیں تو میں آرزو اور ارادہ تو رکھتا ہوں مگر یہاں مجھے فیض کا کہا سچ دکھائی دیتا ہے کہ
وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں​

میری اوپر بیان کی گئی باتوں سے ہرگز یہ مراد نہ لی جائے کہ ڈائریا کی حالت میں استعمال کیا جانے والا او آر ایس میرے دماغ کو چڑھ گیا جس کی وجہ سے میں بہکی بہکی باتیں کرنے لگ گیا ہوں۔
 
ویسے تو ہر ماں کو ہی اپنے بچے بہت عزیز ہوتے ہیں مگر میری اماں میرے حوالے سے بےحد جذباتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میری چھوٹی چھوٹی مثبت حرکتوں پر وہ بہت خوش ہوتی ہیں اور کسی چھوٹی سی بھول پر بہت دکھی بھی ہوجاتی ہیں۔ میں تو پھر میں ہی ہوں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ میں کوئی بھول چوک نہ کروں، سو اکثر و بیشتر میں ایسی حرکتیں کرتا رہتا ہوں جس سے اماں کو پریشان ہونے کے مواقع میسر آتے رہتے ہیں۔ کئی بار سمجھایا ہے کہ اتنا پریشان مت ہوا کریں کہ کبھی نہ کبھی تو سدھر ہی جاؤں گا اور نہ بھی سدھرا تو اتنا یقین دلاتا ہوں کہ مزید نہیں بگڑوں گا۔ بس یہی وہ مقام ہے جہاں اماں مزید الجھن میں مبتلا ہوجاتی ہیں اور پھر پاکستانی سیاست دانوں کی طرح مجھے اپنے بیان کی سو سو وضاحتیں کرنا پڑتی ہیں اور کئی بار وضاحتوں کے چکر میں مزید پھنس جاتا ہوں۔
 
اماں اور میرے تعلق میں بیانات اور پھر وضاحتیں ایک معمول کی صورت اختیار کرچکی ہیں۔ وہ بےچاری تنگ آتی ہیں، روتی ہیں اور پھر کسی چھوٹی سی بات پر خوش ہو کر سب کچھ بھول جاتی ہیں۔ اگر رونے دھونے کے دوران چپ کرانے کے لئے میں یہ کہوں کہ میری شکر پاری، آپ مجھے بہت عزیز ہیں، تو رونا بھول کر ہنستے ہوئے جواب دیتی ہیں کہ اس طرح کی مسکہ بازی مجھ پر اثر نہیں کرتی۔ خیر، میں انہیں کسی نہ کسی طرح منا لیتا ہوں اور اگلی بار پھر کوئی نہ کوئی حرکت ایسی کر بیٹھتا ہوں کہ اماں پھر سے پریشان ہوجاتی ہیں۔
 
مجھے یہ احساس بھی ہے کہ وہ مجھ سے ہزاروں میل دور اکیلی رہتی ہیں اور اس صورت میں ان کا جذباتی انحصار مجھ پر اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ ان سے کہتا ہوں کہ ہمارے پاس پاکستان آجائیں تو یہ ان کے لئے ممکن نہیں کہ ایک تو اس عمر میں اتنا لمبا سفر اکیلے نہیں کرپائیں گی اور دوسرا پاکستان کے ماحول اور موسم میں ان کا گزارہ ہی نہیں ہوسکے گا۔ دوسری جانب جب وہ مجھے امریکہ منتقل ہونے کو کہتی ہیں تو میں یہ کہہ کر معذوری کا اظہار کرتا ہوں کہ میرے لئے پاکستان اور لاہور کے بغیر رہنا بہت مشکل ہے اور ویسے بھی میں اس ملک کی بہتری کے لئے اپنے حصے کا کردار یہیں رہ کر ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اماں کو پاکستان کے حوالے سے میرے نظریات اور جذبات کی شدت کا بخوبی اندازہ ہے اس لئے دعائیں دیتے ہوئے موضوع بدل لیتی ہیں۔
 
موضوع تو آج بھی بدل سکتا تھا مگر میری حرکت ہی ایسی تھی کہ اماں بات ختم ہونے تک ناراض اور دکھی رہیں۔ دراصل، 6 اگست کو اماں کی سالگرہ تھی اور میں ایسا بےوقوف ہوں کہ مجھے بالکل یاد ہی نہیں رہا۔ بھولنے کی ایک وجہ میری طبیعت کی خرابی بھی تھی۔ پورا دن بار بار موبائل فون کا کیلنڈر دیکھ کر سوچتا رہا کہ آج کا دن بھلا کس وجہ سے خاص ہے مگر میرے بھلکڑ دماغ میں یہ خیال ایک بار بھی نہیں آیا کہ آج اماں کی سالگرہ ہے۔ اماں کی ناراضگی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں نے فیس بُک پر جب کوئی تازہ پوسٹ ارسال کی تھی تو اس وقت وہ آنلائن تھیں مگر میرے آفلائن ظاہر ہونے کی وجہ سے مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ موجود ہیں، لہٰذا اس وقت بھی میں انہیں مبارکباد نہ دے سکا۔
 
اپنی اس حرکت کی وجہ سے آج میں نے فون پر بات کرتے ہوئے اماں کو روتے سنا تو بہت تکلیف ہوئی اور خود پر بےحد غصہ بھی آیا کہ میں ہر بار ایسی باتیں کیوں بھول جاتا ہوں جو بہت ہی ضروری ہوتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ پچھلے دو ہفتوں سے مسلسل اتوار کو سنیچر سمجھ کر اماں کا نمبر ملاتا ہوں اور پھر احساس ہوتا ہے کہ آج تو مصروف ہوں گی مگر ساتھ ہی خود کو لعن طعن کرتے ہوئے یہ بھی سوچتا ہوں کہ انہوں نے سنیچر کا پورا دن اس آس پر گزار دیا ہوگا کہ میرا فون کسی بھی وقت آسکتا ہے۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی روتی ہوئی اماں کو اپنی ’مسکہ بازی‘ سے میں نے ہنسا تو دیا مگر وہ جاتے ہوئے بھی یہی کہہ کرگئیں کہ انہیں اس بات کا بہت دکھ ہوا۔ اماں تو چلی گئیں مگر میں خود کو ابھی تک بیٹھا ملامت کررہا ہوں کہ مجھے اماں کی محبت اور خلوص کے جواب میں اس قدر ’بےاعتنائی‘ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔

4 تبصرے:

  1. پہلی بات تو یہ ہے بگڑے بچپن یا لڑکپن میں سنبھل سکتے ہیں مگر جوانی چڑھ جانے کے بعد مشکل ہوتا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ جس بچے کو اپنی ماں کی سالگرہ یاد نہ رہے اُس کی ٹھُکائی لازمی ہونا چاہیئے ۔ تیسری بات کہ 6 اگست کو پاکستان میں ستائسویں رمضان ہو اور آپ بھول جائیں یہ اور بھی بڑا جُرم ہے ۔ چوتھی بات کہ 6 اگست کو بڑے بڑے لوگ پیدا ہوتے ہیں جیسے آپ کی والدہ محترمہ اور جیسے میں ۔ میں اپنی پیدائش کے دن پیدا ہونے والی بہن کے ساتھ ہوں ۔ اب آپ کو ذرا بچ کے رہنا ہو گا

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت خوب۔ سر، اماں سے تو میں نے معافی مانگ لی اور انہیں منا بھی لیا۔ اب آپ سے بھی معذرت کرلیتا ہوں۔ :)
    آپ کو سالگرہ کی بہت مبارکباد اور اماں کی طرح آپ کا تحفہ بھی ادھار رہا۔ انہیں تو میں عید کے بعد تحفہ ارسال کردوں گا اور آپ کو اسلام آباد آمد پر مل کر تحفہ پیش کروں گا! :)

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت شکریہ آپ کا ۔ مجھے علیحدہ تحفہ دینے کی کیا ضرورت ہے ۔ میری بہن کو تحفہ مل گیا تو سمجھیئے مجھے مل گیا ۔
    آپ کی والدہ محترمہ کیا اسلام آباد میں رہتی ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو جب بھی آپ والدہ محترمہ سے ملنے تشریف لائیں تو ملیئے گا

    جواب دیںحذف کریں
  4. سر، وہ تو اسلام آباد میں نہیں ہیں مگر میرا اسلام آباد آنا جانا لگا رہتا ہے۔ اس بار جب اسلام آباد آیا تو انشاءاللہ آپ سے ملنے کے لئے حاضر ہوں گا۔

    جواب دیںحذف کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں