تازہ ترین
کام جاری ہے...
اتوار، 17 نومبر، 2013

قاتل بھی میرے یار تھے، مقتول بھی عزیز

راولپنڈی میں کل جس طرح خون کی ہولی کھیلی گئی اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم انسانوں کے معاشرے میں نہیں بلکہ ایک ایسے جنگل میں بس رہے ہیں جہاں درندے اور وحشی، معصوموں کے خون کے پیاسے بن کر جگہ جگہ دندناتے پھررہے ہیں۔ راولپنڈی اپنی جغرافیائی حیثیت کے اعتبار سے کوئی عام شہر نہیں ہے کہ اس کے پڑوس میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد واقع ہے جو پاکستان کی سیاسی و ریاستی قوت کا مرکز ہے۔ علاوہ ازیں، پاکستان کی فوجی قیادت راولپنڈی کے دامن میں ہی بستی ہے۔ جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) اس راجہ بازار سے محض دو میل کے فاصلے پر ہے جہاں گزشتہ روز کئی گھنٹے تک موت کا ننگا ناچ ہوتا رہا۔

موت کا آسیب جب راجہ بازار میں کھلے عام گھوم رہا تھا اس وقت نہ تو کہیں وفاقی حکومت کے جادو گر دکھائی دئیے اور نہ ہی صوبائی حکومت کے عاملوں کا وجود کہیں نظر آیا۔ اس دوران قانون کے نفاذ اور امن و امان کے قیام کے لئے قائم کردہ تمام ادارے بھی یوں بےسدھ دکھائی دئیے جیسے کسی مسیح کے 'قم باذن اللہ' کہنے کے منتظر ہوں۔ سچ کہوں تو مجھے کل ایک بار پھر پاکستان کے دفاع کے مضبوط ہاتھوں میں ہونے کے تمام تر دعوے کھوکھلے اور بےبنیاد دکھائی دئیے۔ بھلا یہ کیسے مضبوط ہاتھ ہیں کہ جن کی قوت کی ذرا سی بھی پروا کیے بغیر  چند شرپسند عناصر نے دیکھتے ہی دیکھتے شہر کے ایک اہم حصے کو اپنے قابو میں لے لیا اور پھر جب تک ان کا جی چاہا وہ وہاں آگ اور خون کا کھیل کھیلتے رہے؟

تصادم کی نفسیات وحشت اور دہشت کے خمیر سے وجود میں آتی ہے۔ اسی لئے جب دو گروہوں کے مابین تصادم ہوتا ہے تو وہ یہ نہیں پوچھتا کہ کس پر ترس کھانا ہے اور کس کے سر کو تن سے جدا کرنا ہے۔ اس وقت تو جنون سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو ماؤف کردیتا ہے اور بس یہ دھن سر پر سوار ہوتی ہے کہ کسی بھی طرح حزبِ مخالف کو خاک میں ملادیا جائے، اور یہی سب کچھ گزشتہ روز ہوا۔ میں مسلکی تفریق کا شدید مخالف ہوں، سو اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ کس فرقے کے کتنے بندے مرے اور کس مکتبہء فکر کے کتنے افراد زخمی ہوئے۔ خون کسی کا بھی بہا ہو، مجھے تو بس یہ پتہ ہے کہ داغدار میری دھرتی ہوئی ہے۔ مرے کسی بھی نظریے سے تعلق رکھنے والے ہوں، میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ چھری کلمہ پڑھنے والوں کی گردن پر چلی ہے۔ لاشہ کسی بھی گھر سے اٹھا ہو، مجھے تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ بین میری ذات کے اندر پڑرہے ہیں۔

خلافِ معمول گزشتہ چوبیس گھنٹے میں میرا کافی زیادہ وقت سوشل میڈیا پر 'آوارہ گردی' کرتے ہوئے گزرا۔ میرے شیعہ دوست کل رات سے اب تک اس کوشش میں ہیں کہ کسی بھی طرح وہ سنّیوں کو اس سارے معاملے کے لئے پوری طرح ذمہ دار ثابت کردیں جبکہ میرے سنّی دوستوں نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ وہ شیعوں کو مجرم ثابت کیے بغیر سکھ کا سانس نہیں لیں گے۔ مختلف تصاویر، اسنیپ شاٹس، ویڈیو کلپس اور تحریریں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائی اور لگائی جارہی ہیں تاکہ کسی بھی طرح مخالف فریق کو جھوٹا اور گنہگار ثابت کر کے اپنی بےگناہی اور معصومیت کی دلیل مہیا کی جاسکے۔ میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں سے یہ تماشہ دیکھ رہا ہوں اور واصف علی واؔصف کا یہ شعر مسلسل میرے ذہن میں گردش کررہا ہے:
قاتل بھی میرے یار تھے، مقتول بھی عزیز
واؔصف میں اپنے آپ میں نادم بڑا ہو

ایک تبصرہ:

  1. اللہ تعالی مقتولین کی مغفرت فرمائے اور ہمیں سوچنے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

    جواب دیںحذف کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں