تازہ ترین
کام جاری ہے...
پیر، 2 دسمبر، 2013

بات تو سچ ہے مگر۔۔۔


آج یونیورسٹی سے واپسی پر چوبرجی کے قریب ایک رکشے پر نظر پڑی جس کے پیچھے ایک انتہائی فکر انگیز جملہ لکھا ہوا تھا۔ جملہ کچھ یوں تھا کہ "جس ملک میں واٹر کولر پر رکھے ہوئے گلاس کو زنجیر سے باندھنا پڑے اور مسجدوں میں لوگوں کو آخرت سے زیادہ اپنے جوتوں کی فکر ہو، وہاں صدر یا وزیراعظم کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔"

یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور ایسے کئی معاملات ہیں جن کی طرف ہمارا دھیان عام طور پر جاتا ہی نہیں اور اگر دھیان اس طرف چلا بھی جائے تو ہم یہ سوچ کر اس خیال کو باطل قرار دے دیتے ہیں کہ بھلا میرے سنورنے سے یہاں کون سی تبدیلی آجانی ہے۔ ذرا سوچئے کہ جس ملک میں لوگ ٹریفک کے اشارے پر محض کچھ سیکنڈز کے لئے دوسرے کے حقوق کا احترام نہیں کرتے، وہاں مستقل طور پر انسانی حقوق، حقوقِ نسواں اور اقلیتوں کے حقوق کا رونا چہ معنی دارد؟ جہاں دکان کے بورڈ پر جلی حروف میں "و من غش فلیس منی" کے الفاظ لکھے ہوں اور پھر عین اس کے نیچے کھڑے ہو کر دودھ میں پانی ملا کر بیچتے ہوئے توہینِ حکمِ رسول دھڑلے سے کی جائے وہاں عشقِ رسول کے کھوکھلے دعوے محض زبانی جمع خرچ نہیں تو اور کیا ہیں؟ جہاں ایک خوانچہ فروش چار آنے کا نفع حاصل کرنے کے لئے آٹھ جھوٹی قسمیں کھانے کو ناگوار کی بجائے ناگزیر خیال کرتا ہوں وہاں اقوال و اعمال میں کون سی ایسی مطابقت پائی جاتی ہوگی جس کے مطابق ہم خود کو دینِ مبین کے پیروانِ متین کہلانے کا مستحق سمجھتے ہوں؟

یہ تو قانون قدرت ہے کہ جیسے لوگ ہوتے ہیں ان پر ویسے ہی حکمران مسلط کردیئے جاتے ہیں۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا ہے کہ ہم سب خود تو ظاہر و باطن میں ہر طرح سے پورے اور پکے عزازیلِ لعین ہوں اور حکمران ہم پر جبریلِ امین کو مقرر کردیا جائے۔ آصف زرداری ہوں یا نواز شریف، فضل الرحمٰن ہوں یا عمران خان، منور حسن ہوں یا الطاف حسین، ان سب لوگوں میں کہیں نہ کہیں ہمارے اجتماعی وجود اور معاشرتی شعور کی جھلک ہی دکھائی دیتی ہے اور ہماری حقیقت پسندی کا یہ عالم ہے کہ چہرے کے داغ صاف کرنے کی بجائے آئینے کو برا بھلا کہتے ہوئے خود کو یہ تسلی دے لیتے ہیں کہ ہمارے چہرہء انور پر داغ ہائے بدنما کا ظہور مغرب سے طلوعِ آفتاب کے مصداق ہے، سو ایسا ہونا ممکن ہی نہیں!

پسِ تحریر: پیش کردہ تصویر مذکورہ رکشے کی نہیں ہے۔

7 تبصرے:

  1. سو فیصد درست لکھا ہے آپ نے ۔ کاش اس قوم کو سمجھ آ جائے اور قوم کا ہر فرد دوسروں کے سروں میں گرد تلاش کرنے کی بجائے اپنے سر پر پڑی گرد کو صاف کرنے لگے

    جواب دیںحذف کریں
  2. دراصل اس قوم کے ضمیر مردہ ہونے کی وجہ علامہ اقبال نے بہت سال پہلے تشخیص کردی تھی، کہ یہ دنیا خدا کے آزاد بندوں کی ہے، جبکہ یہ خطہ غلامی کی ہر شکل اپنے اندر رکھتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. علامہ اقبال نے بندگان آزاد کی یہی صفت بیان کی ہے کہ ان کے ضمیر مردہ نہیں ہوتے ، غلامی انسان سے شعور چھین لیتی ہے ۔ آج غلامی کی ہر ٖقسم سے ہم آراستہ ہیں ، ایسے میں سمجھ اور حیا کس راستے سے آسکتی ہے؟

    جواب دیںحذف کریں
  4. Why dont ur bog support comments with a wordpress account.
    Sarwataj.wordpress.com

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. I didn't know that my blog doesn't support Wordpress. Anyhow, I am obliged to you for the notice. And I try to resolve the issue on ASAP basis.

      حذف کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں