تازہ ترین
کام جاری ہے...
جمعہ، 27 دسمبر، 2013

یہ بھی مرا قصور کہ تم ہو دروغ گو

یہ واقعہ مارچ 2012ء کے ابتدائی دنوں کا ہے۔ ایک صبح ہمارے ایک دوست نے ٹیلیفون پر رابطہ کیا اور کہا کہ ایک بین المذاہب کانفرنس کے سلسلے میں چار روز کے لئے آپ کو اندرونِ سندھ لے کر جانا ہے۔ ہم نے کہا کہ دفتر سے اجازت لے کر ہم آپ کو آگاہ کریں گے۔ خیر، اجازت مل گئی اور دو روز کے بعد ہم لوگ پہلے لاہور سے بذریعہ پرواز کراچی اور پھر وہاں سے بذریعہ بس رات گئے میرپور خاص پہنچے۔ کانفرنس کا اہتمام ایک پاکستانی غیرسرکاری تنظیم یعنی این جی او کی طرف سے کیا گیا اور یہ بات ہمیں بعد میں معلوم ہوئی کہ اس کے لئے رقم یا فنڈنگ ایک معروف بین الاقوامی عیسائی ادارے کی جانب سے فراہم کی گئی تھی۔ کانفرنس میں شرکت کرنے والے تقریباً تمام افراد کا تعلق شعبۂ صحافت سے تھا، تاہم مقررین مختلف شعبۂ ہائے حیات سے منسلک تھے۔

کانفرنس کے مختلف سیشنز کے دوران جن لوگوں نے خطاب کیا ان میں ڈپٹی بشپ آف حیدرآباد فادر ڈینیل فیاض، روزنامہ عبرت حیدرآباد کے مذہبی ایڈیشن کے انچارج جے پرکاش مورانی، معروف ہندو وکیل ایم پرکاش، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سندھ کے نمائندے ڈاکٹر آشوتم اور 'ہیرالڈ' کے ایڈیٹر محمد بدر عالم شامل تھے۔ کانفرنس میں جو باتیں اور بحثیں ہوئیں انہیں تفصیل سے بیان کرنے کو دل تو بہت چاہ رہا ہے مگر اس کام کے لئے یہ موقع مناسب نہیں کہ ابھی ہمیں صرف اس سیشن سے متعلق بات کرنا ہے جس میں بدر عالم نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ کو ایک خاص نقطۂ نظر سے پیش کرنے کی کوشش کی۔

گفتگو کے آغاز میں بدر عالم نے تختے پر مارکر سے ایک تکون بنائی۔ اب بات چلی تو سب سے پہلے جوگندر ناتھ منڈل کا ذکر آیا کہ وہ پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کے اسپیکر تھے اور انہوں نے ہی قائداعظم محمد علی جناح سے حلف لیا تھا۔ تکون کے تینوں کونوں پر بدر عالم نے قائداعظم، منڈل اور پاکستان کے نام لکھ دیئے۔ پھر پہلے دو نام مٹا کر ایک کونے پر انہوں نے پاکستان-1947ء لکھا، دوسرے کونے پر اسلام-1000 اور تیسرے کونے پر پنجابی/بلوچی/سندھی/پشتون لکھ دیا۔ بدر عالم ہماری معاشرتی تاریخ کے ابتدائی حصے پر بات کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ جناح صاحب بہت بڑے ویژنری اور زیرک تھے۔ ہم نے اچھا موقع جانتے ہوئے ہاتھ ہوا میں لہرایا اور کہا کہ حاضرین کو اگر محمد اسد اور قائداعظم کی طرف سے انہیں سونپی جانے والی ذمہ داریوں کے بارے میں بھی بتادیا جائے تو مناسب رہے گا۔ بدر عالم نے پوچھا کہ محمد اسد کہاں کے رہنے والے تھے۔ ہمارا جواب تھا کہ شاید آسٹریا کے۔ فرمایا، میں کسی غیرملکی پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ عرض کی گئی کہ وہ ان اولین لوگوں میں سے تھے جنہیں قائداعظم نے خود پاکستانی شہریت سے نوازا تھا، لہٰذا اب بتادیجئے کہ ان کے پاس کیا ذمہ داری تھی۔ بدر عالم قدرے برہم ہو کر بولے تو پھر آپ ہی بتادیجئے۔ ہم نے کہا کہ ہم تو سامع ہیں، آپ ہی بتائیے تو مناسب رہے گا۔ کہنے لگے، نہیں، آپ بتائیں اب۔ ہم نے جواب دیا کہ محمد اسد مفسرِ قرآن ہیں اور انہوں نے بخاری شریف کی شرح بھی لکھی ہے۔ انہیں قائداعظم کی طرف سے پاکستان کے پہلے دستور کے لئے اسلامی سفارشات مرتب کرنے کا کام سونپا گیا تھا اور انہوں نے سفارشات مرتب بھی کیں جو آج بھی کسی محکمے میں محفوظ پڑی ہیں۔ بدر عالم کہنے لگے کہ یہ جناح صاحب کی غلطی تھی۔ عرض کی گئی کہ ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ وہ بہت بڑے ویژنری اور زیرک تھے۔ فرمایا، ہاں مگر ان سے غلطی ہوئی تھی۔

خیر، خطاب آگے چل پڑا۔ اب تاریخ کے تقریباً ہر موڑ پر ہماری اور بدر عالم کی آپس میں مڈبھیڑ ہورہی تھی اور وجہ صاف ظاہر تھی کہ وہ تاریخ کو اپنی مرضی کا رنگ دینا چاہ رہے تھے اور ہم ان سے گزارش کررہے تھے کہ ہم سب لوگ بھی آپ کی طرح صحافی ہیں، آپ تاریخ بیان کرتے ہوئے اپنے نقطۂ نظر سے الگ ہو کر تصویر کے دونوں رخ ہمارے سامنے رکھ دیں اور فیصلہ ہمیں کرنے دیں کہ کب، کہاں اور کیا گڑبڑ ہوئی۔ بالآخر بدر عالم تپ کر بولے کہ آپ اس لئے ایسی باتیں کررہے ہیں کیونکہ آپ کی پرورش 'منصورہ' میں ہوئی تھی۔ ہم نے کہا کہ بدر صاحب، ذاتیات پر تو ہم بھی اتر سکتے ہیں مگر ہم آپ جیسے نہیں اور آپ کی اس حرکت سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ آپ اختلافِ رائے رکھنے والوں سے کیسے پیش آتے ہیں۔

کانفرنس کے دیگر سیشنز کی طرح یہ سیشن بھی ہمیں اس کانفرنس کے اغراض و مقاصد سے بخوبی واقف کررہا تھا۔ ہمارا کسی 'روشن خیال' سے یہ پہلا ٹاکرا نہیں تھا، تاہم اس واقعے سے ہم پر یہ واضح ہوگیا کہ لبرلزم کے دعویدار خواہ کتنے ہی پڑھے لکھے ہوں اور وہ کسی بھی پیشے منسلک سے ہوں، ان سے غیرجانبداری اور صاف گوئی کی توقع کرنا عبث ہے۔

3 تبصرے:

  1. بین المذھبی کانفرنس کا مقصد مشترکہ نقاط ڈھونڈنا ہوتا ہے تاکہ آپسی نفرتیں ختم کی جاسکیں۔
    لیکن آپ کے پوچھے گئے سوال اختلافی پوائنٹس کی طرف توجہ مبذول کرتے ھیں۔
    میری خواہش ہے کہ آپ کچھ عرصہ اپنے سے مختلف مذاھب کے ماننے والوں کے درمیاں بھی گزاریں تاکہ آپ کے طرز عمل کو دیکھ کر ان کے دل میں تمام مسلمانوں کے لیے ایک رائے بن جائے۔
    کسے پرواہ کہ وہ رائے اچھی ہوگی یا بری۔!!!۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. جی بالکل درست کہا آپ نے اور میرا بھی یہی خیال ہے کہ بین المذاہب کانفرنس کا مقصد مشترکہ نکات پر بات کر کے آپسی نفرتیں ختم کرنا ہوتا ہے، نہ کہ کسی ایک مذہب اور اس کے ماننے والوں کو لتاڑنا اور مذہب بھی ایسا جس کے پیروکار اس ملک کے اندر نوے فیصد سے زائد تعداد میں ہیں۔
    آپ کی خواہش کے حوالے سے عرض کرنا چاہوں گا کہ میں نے مسلمانوں کے علاوہ قادیانیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کے ساتھ بہت سا وقت گزارا ہے اور شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ میری ایک والدہ مذہباً عیسائی ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت خوب عاطف بھائی :)
    مجھے نام دیکھ کر ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ کس قسم کی کانفرنس ہوگئ۔
    اور اوپر سے آپکے سوالات نے تو بدر صاحب کی پوری تقریر ہی خراب کی ہوگی۔ :-)

    جواب دیںحذف کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں