تازہ ترین
کام جاری ہے...
بدھ، 4 دسمبر، 2013

اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا

ایک قومی روزنامہ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق سی سی پی او لاہور چوہدری شفیق احمد گجر نے اپنے بھائی رکن صوبائی اسمبلی چوہدری گلزار احمد گجر کی انتخابی مہم کے لئے اشتہارات کی مد میں دل کھول کر رقم خرچ کرنے والے معطل سب انسپکٹر چوہدری ذوالفقار علی گجر کو نہ صرف بحال کیا بلکہ انہیں تھانہ وحدت روڈ کے ایس ایچ او کے طور پر بھی تعینات کردیا۔ ذوالفقار گجر نے سی سی پی او کے بھائی کی انتخابی مہم کے لئے جو اشتہارات چھپوائے ان میں موصوف نے اپنی تصویر بھی ساتھ لگوائی۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ اس سلسلے میں جب ذوالفقار گجر سے مؤقف لینے کے لئے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اشتہارات چھپوانے والا شخص ان کا ہم شکل اور ہم نام ہوگا۔

ہم شکل اور ہم نام ہونے کے اس بیان سے یقیناً ہماری طرح آپ بھی لطف اندوز تو بہت ہوئے ہوں گے مگر اب ذرا اس بات کا اس پہلو سے بھی جائزہ لیجئے کہ ہمارے ہاں قانون کے نفاذ پر مامور افراد کس ذہنیت کے حامل ہیں اور وہ عام لوگوں کو کتنا بےوقوف اور سادہ لوح خیال کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں تھانہ کلچر کی قبیحات کی مذمت کرتے ہوئے پولیس میں عملِ تطہیر کی اہمیت پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے جو عملی اقدامات کیے ان کے تحت پولیس اہلکاروں کی تنخواہوں میں غیرمعمولی اضافہ بھی کیا گیا۔ شہباز شریف کے اقدامات اپنی جگہ مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان اقدامات کے نتیجے میں خاطر خواہ نتائج برآمد ہو پائے یا نہیں اور اگر خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے تو اس کی کیا وجوہات ہیں اور بھلا اور کون سے ایسے اقدامات ہوسکتے ہیں جن کی مدد سے پولیس جیسے اہم ترین محکمے کی 'قلبِ ماہیئت' ممکن ہے۔

مذکورہ خبر میں جن رکن صوبائی اسمبلی کا ذکر ہے ان کا تعلق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) سے ہی ہے۔ جس افسر پر مبینہ 'اشتہاری رشوت' کے ذریعے اثر انداز ہوا گیا وہ کوئی اے ایس آئی، سب انسپکٹر یا انسپکٹر نہیں بلکہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل اور صوبائی دارالحکومت کے نظم و نسق کا سربراہ ہے۔ جہاں ڈی آئی جی کے عہدے پر فائز شخص بھی غیرقانونی اور غیراخلاقی طریقوں سے اثر انداز ہونے کا رجحان رکھتا ہو وہاں ایک سپاہی یا حوالدار سے بھلا کیسی اخلاقیات اور فرض شناسی کی توقع کی جانی چاہئے؟

اب دیکھنا یہ ہے کہ اخبار کے ذریعے اس بات کے عام ہوجانے کے بعد خادمِ اعلیٰ کہلانے والے صوبائی حاکمِ اعلیٰ اپنی جماعت کے رکن صوبائی اسمبلی اور سی سی پی او لاہور کے خلاف کیا کارروائی کرتے ہیں۔ اگر اس سلسلے میں روایتی سیاسی مصلحت کوشی کو بنیاد بنا کر معاملہ دبا دیا گیا تو سمجھ لیجئے کہ پنجابی محاورے کے مطابق چور اور کتی نے آپس میں ساٹھ گانٹھ کررکھی ہے اور اب اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔

ایک تبصرہ:

  1. پولس نوں آکھاں رشوت خور تے فیدہ کیہہ؟
    جھاڑو مار بناون مور تے فیدہ کیہہ؟

    بوتھی ہوجائے ہور دی ہور تے فیدہ کیہہ؟
    پِچھوں کردا پھراں ٹکور تے فیدہ کیہہ؟

    جواب دیںحذف کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں