تازہ ترین
کام جاری ہے...
جمعہ، 16 مئی، 2014

اک لونگ گواچا ہے تو کیا شور مچا ہے


سنا ہے کہ کسی ایک قوالی کے نشر ہونے پر ان دنوں وطنِ عزیز میں شور مچا ہوا ہے۔ صحافت سے وابستہ ہوئے دس برس ہوگئے اور ٹیلیویژن سے انسلاک کو بھی ساتواں سال ہے لیکن ہمارے اپنے گھر میں ٹی وی نہیں ہے۔ اسی باعث بہت سا وقت، توانائی اور دماغ ضائع ہونے سے بچ جاتے ہیں، جنہیں کئی اور امورِ مفیدہ میں کھپایا جاسکتا ہے۔ خیر، بات ہورہی تھی اس قوالی کی جس نے پاکستان میں بسنے والی اس مسلم امّہ کا ضمیر جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے جو نہ تو اسلام کے حقیقی پیغام سے واقف ہے اور نہ ہی اسے یہ پتہ ہے کہ ضمیر کس چڑیا کا نام ہے۔ قوالی پر سیخ پا ہونے کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ اس میں اسلامی تاریخ کی دو مقدس ہستیوں کی توہین کی گئی ہے۔ غم و غصے کی یہ کیفیت بالکل جائز اور درست ہے اور مقدس ہستیوں کی تضحیک و توہین کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جانی چاہئے، لیکن ذرا ٹھہرئیے اور کچھ غور طلب نکات پر نظر دوڑائیے! پہلی بات تو یہ کہ کیا یہ واحد قوالی ہے جس میں ایسی ہستیوں کی توہین کی گئی ہے یا صرف وہ دو ہستیاں ہی ایسی ہیں جن کی توہین ہوئی ہے؟ مجھے امید ہے کہ آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔ اب یہ بھی سوچیے کہ ایسی اور کتنی قوالیاں، منقبتیں، سلام اور نعتیں ہیں جن میں ہم تعریف و توصیف و تحسین پر اترتے ہیں تو زمین و آسمان کے قلابے ملائے بغیر ہمارا گزارہ ہی نہیں ہوتا؟ میرے خیال میں اس گنتی کے دوران آپ کی انگلیوں کی پوریں کم پڑجائیں گی۔ اب ذرا دل تھام کر بتائیے کہ اس صورتحال میں محض کسی ایک ادارے یا فرد کو گالی دینا یا اس پر پابندی لگانا کس حد تک جائز ہے؟

میں مسلکی تفریق کے شدید ترین مخالفین میں سے ہوں، تاہم کچھ حوالے دئیے بغیر بات مکمل نہیں ہوپائے گی لیکن خیالِ خاطرِ احباب کے پیشِ نظر یہاں کسی فرقے کا نام نہیں لیا جارہا۔ چند برس قبل ایک مکتبِ فکر کے لاہور میں واقع ایک بڑے مدرسے کی جانب سے ایک عالمی شہرت یافتہ عالمِ دین اور مفسرِ قرآن کے قتل کا فتویٰ محض اس بنیاد پر جاری کردیا گیا کہ انہوں نے دورۂ تفسیر کے دوران ایک ایسی مستند حدیث کا حوالہ دیا جو اس مکتبِ فکر کے نظریات سے متصادم تھی۔ لاہور کی سڑکیں اس واویلے کی شاہد ہیں جو اس فتویٰ کے بعد اس مکتبِ فکر کے لوگوں نے مچایا۔ یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے کہ وہ شور و غوغا کیسے تھما مگر اس کے بیان کا یہ محل نہیں۔ تعجب اس بات پر ہے کہ اسی مکتبِ فکر سے متعلقہ افراد کی لکھی اور گائی ہوئی ایسی ایسی توہین آمیز چیزیں آپ کو عام طور پر رکشوں، ویگنوں اور عوامی آمد و رفت کے دیگر ذرائع میں سفر کے دوران  سننے کو ملتی ہیں کہ ان کو بنیاد بنا کر شہر میں دنگا فساد کروانا معمولی سی بات ہے لیکن اس مدرسے نے کبھی بھی یہ زحمت گوارا نہیں کی اپنے متعلقین کی اصلاح پر بھی کوئی توجہ دے لی جائے۔ اسی طرح لاہور کے مختلف کونوں میں منعقد ہونے میلوں ٹھیلوں اور محافلِ میلاد کے دوران میں نے خود ایسی ایسی قوالی اور مذہبی شاعری (جسے وہ لوگ اپنے تئیں نعت قرار دیتے ہیں) سنی ہے کہ اس کی بنیاد پر 295 سی لگوا کر سارا محلہ حوالات میں بند کروایا جاسکتا ہے مگر ہمارے ہاں کبھی کوئی عالم ایسی باتوں پر معترض نہیں ہوا۔

اب خدا لگتی بات تو یہ ہے کہ جب آپ عوامی مقامات اور گلی محلوں میں ایسی چیزوں کو فروغ دے رہے ہوں گے تو بھلا ٹیلیویژن اس 'کارِ خیر' میں اپنا حصہ ڈالنے سے کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں اور ریٹنگ تو ایک ایسی شے کا نام ہے جس کے حصول کے لئے اینکرز اور ٹی وی چینل مالکان ہوا میں الٹے لٹکنے کے کرتب تک کر کے دکھا سکتے ہیں۔ اگر آپ کو میری اس بات پر یقین نہ آئے تو گزشتہ برس کی رمضان ٹرانسمیشن میں عالم ہونے کا دعویٰ کرنے والے ایک صاحب کے پروگرام نکال کر دیکھ لیجئے کہ کس طرح وہ افطار کے فوراً بعد لائیو گانے بجوا کر اور طرح طرح کے جانور اپنے پروگرام میں دکھا کر ریٹنگ حاصل کرنے کی سعی میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔

ہمارے ہاں بعض ذی شعور لوگ ٹیلیویژن چینلوں کے ریٹنگ کے پیچھے پاگل ہونے پر اعتراض کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر اس ضمن میں بات کرتے ہوئے وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ ٹی وی چینلز کا ریٹنگ کی دوڑ میں دیوانہ وار بھاگتے ہی چلے جانا بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ ہمارے ہاں عمومی معاشرتی رویے بھی تو ایسے ہیں کہ قومی و اجتماعی معاملات کے ذیل میں سنجیدگی سے دور دور تک ہمارا کوئی لینا دینا ہی نہیں۔ اب ایسی صورتحال میں تو ٹیلیویژن یہی سب کچھ پیش کریں گے جو کچھ وہ کررہے ہیں۔ جس ملک میں ٹی وی کے لچر ڈراموں اور لغو پروگراموں کو دیکھنے والوں کی تعداد مجموعی آبادی کے ایک بڑے حصے پر مشتمل ہو اور وہ ڈرامے اور پروگرام ٹی وی چینل مالکان کے لئے کروڑوں اربوں روپے کے منافع کا ذریعہ ہوں اور اس کام کے لئے ڈالروں اور پاؤنڈوں کی صورت میں بھاری رقوم بھی بطور نذرانہ موصول ہوتی ہوں، وہاں بہاؤ مخالف سوچ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مصداق ہی خیال کی جائے گی۔ اب اس تناظر میں دیکھا جائے تو انور مسعود کی یہ بات ہے تو بہت پرانی مگر موجودہ صورتحال پر بھی اتنی ہی صادق آتی ہے جتنی کہ وہ آج سے چار ساڑھے چار دہائیاں قبل معتبر خیال کی گئی تھی:

کس طرح کا احساسِ زیاں ہے جو ہوا گُم
کس طرح کا احساسِ زیاں ہے جو بچا ہے
ملک آدھا گیا ہاتھ سے اور چپ سی لگی ہے
اک لونگ گواچا ہے تو کیا شور مچا ہے

ایک تبصرہ:

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں