تازہ ترین
کام جاری ہے...
ہفتہ، 19 جولائی، 2014

یہ بات ہے ایک دہائی کی۔۔۔


آج سے ٹھیک ایک عشرہ قبل ہم نے اٹلس ہنڈا لمیٹڈ (اے ایچ ایل) میں ایگزیکٹیو انونٹری مینیجمنٹ کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا تھا۔ ملازمت کے آغاز کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ہم بی کام کے پرچوں کی تیاری کررہے تھے کہ اخبار میں ایک اشتہار پر نظر پڑی جس میں لکھا تھا کہ اے ایچ ایل کو مختلف شعبوں میں کام کرنے کے لئے گریجوایٹس اور انجینئرنگ میں ڈپلومہ کے حامل افراد کی ضرورت ہے۔ ہم نے سوچا کہ پرچوں کے بعد تو فارغ ہی رہنا ہے کیوں نہ نوکری کے لئے درخواست دی جائے پھر دیکھتے ہیں کیا بنتا ہے۔ اسی وقت قریبی ڈاکخانے گئے، ایک لفافہ خریدا اور اسے میں اپنا کوائف نامہ ڈال کر سپردِ ڈاک کردیا۔

پرچے شروع ہوگئے اور امتحانات کی بھاگ دوڑ میں یہ یاد ہی نہ رہا کہ ہم نے کسی نوکری کے لئے کوئی درخواست بھی دی تھی۔ خیر، آخری پرچہ دے کر کالج پہنچے تو موبائل فون پر کال موصول ہوئی۔ دوسری جانب سے ایک خاتون بول رہی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ نوکری کے لئے تحریری امتحان کے سلسلے میں ہمیں شیخوپورہ کے قریب واقع اے ایچ ایل کے موٹرسائیکل پلانٹ پر اگلی صبح آٹھ بجے پہنچنا ہوگا۔ ہم نے اثبات میں جواب دے کر کال منقطع کردی۔

ہم کبھی بھی وقت کے پابند نہیں رہے اور یقین مانیں ہم نے اس بات پر کبھی غرور بھی نہیں کیا! اپنی عادت کے عین مطابق اگلے روز ہم سو کر اس وقت اٹھے جب تقریباً نو بج چکے تھے۔ گھڑی پر نظر پڑی تو حسبِ معمول ذرا سا پریشان بھی ہوئے کہ آج تو آٹھ بجے نوکری کے تحریری امتحان کے لئے پہنچنا تھا مگر کیا مجال کے حوصلہ ہارا ہو۔ اٹھ کر نہائے دھوئے، ناشتہ کیا، جیب میں جھانکا تو اتنے پیسے موجود پائے کہ بآسانی شیخوپورہ تک آنا جانا ہوسکے۔ تیار ہو کر گھر سے نکلے اور مینارِ پاکستان کے سامنے سے شیخوپورہ جانے والی گاڑی پر سوار ہوگئے۔ گاڑی نے جا کر خانپور نہر کے پل پر اتار دیا (دراصل یہ نہر اپر چناب ہے لیکن قریبی گاؤں کی نسبت سے خانپور نہر کہلاتی ہے)۔

وہاں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ فیکٹری کا مین گیٹ سڑک کے ساتھ اندر جانے والے کچے راستے پر ہے۔ گیٹ پر پہنچ کر وہاں موجود محافظین کو بتایا کہ ہم تحریری امتحان کے سلسلے میں تشریف لائے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امتحان شروع ہوئے آدھا گھنٹہ گزر چکا ہے اور اب ہمیں اندر جانے کی اجازت نہیں۔ ہم نے کہا کہ اندر کسی افسر سے بات کرو کہ ایک امیدوار باہر کھڑا ہے اگر اجازت ہو تو اندر آجائے؟ خوش قسمتی سے اجازت مل گئی۔ ایک محافظ ہمارے ساتھ چلتا ہوا ہمیں مین اسمبلی لائن کے سامنے موجود اس دفتر میں لے گیا جہاں درخواست دہندگان کی ایک بڑی تعداد سر جھکائے امتحان دینے میں مصروف تھی۔ ایک خاتون نے ہمارا استقبال کیا (ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ خاتون کا تعلق شعبۂ انسانی وسائل سے ہے اور ہمیں کال بھی آپ نے ہی کی تھی) اور بتایا کہ اب ہمیں امتحان میں اس لئے نہیں بیٹھنے دیا جاسکتا کیونکہ آدھے سے زیادہ وقت گزر چکا ہے۔ ہم نے کہا کہ آپ پرچہ دے دیجئے، ہم حل کرلیں گے۔ وہ مان گئیں۔

ہمیں ایک جگہ بٹھا کر جوابی کاپی کے ساتھ ایک سوالنامہ تھماتے ہوئے بتایا گیا کہ اب ہمارے پاس پرچہ حل کرنے کے لئے صرف پچیس منٹ ہیں۔ ہم نے پرچے پر نظر ڈالی تو انگریزی زبان، ریاضی اور حسابداری (اکاؤنٹنگ) سے متعلق معلومات کا امتحان لیا جارہا تھا۔ اللہ کا نام لے کر لکھنا شروع کردیا۔ پندرہ منٹ کے بعد ہم نے اضافی کاپی مانگی تو وہ خاتون ہمیں حیرانی سے دیکھنے لگیں۔ کاپی مل گئی اور ہم نے مقررہ وقت سے ایک دو منٹ پہلے پرچہ حل کر کے انہیں پکڑا دیا۔ پرچہ دے کر ایک شریف بچے کی طرح ہم سیدھا گھر پہنچے اور آ کر حسبِ معمول اپنے کمرے میں بیٹھ کر پڑھنے لگ گئے۔

دو تین روز کے بعد انہی خاتون کی کال آئی اور انہوں نے مبارکباد دیتے ہوئے بتایا کہ ہم تحریری امتحان میں نہ صرف کامیاب ہوگئے ہیں بلکہ اے ایچ ایل کی تاریخ میں تحریری امتحان میں سب سے زیادہ نمبر ہم نے ہی حاصل کئے ہیں۔ ہم نے نمبر پوچھے تو بتایا گیا 92۔ ہم نے شکریہ ادا کیا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ خوش معلوم نہیں ہوتے۔ ہم نے جواب دیا کہ سنچری کرتے تو خوشی ہوتی 92 پر کیا خوشی منائیں۔ خیر، انہوں نے بتایا کہ اب ہمارا پہلا انٹرویو ہے جس کے لئے ہمیں دو روز بعد 10 بجے فیکٹری پہنچنا ہے۔

انٹرویو کے لئے گئے۔ انٹرویو ہوگیا۔ مبارکباد کے بعد بتایا گیا کہ اب دوسرا انٹرویو ہوگا۔ ہم چونکہ ان دنوں ایک اردو روزنامے میں مضامین لکھنے کا شغل شروع کرچکے تھے تھے، لہٰذا دوسرے انٹرویو میں انسانی وسائل اور انتظامیہ کے جنرل مینیجر بسرا صاحب نے ہم سے دیگر موضوعات کے علاوہ حالاتِ حاضرہ اور بین الاقوامی سیاست پر بھی بات کی اور خاص طور پر فلسطین-اسرائیل تنازعے کے بارے میں ہماری رائے پوچھی۔ خیر، دوسرے انٹرویو میں کامیاب ہوئے تو چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) کے ساتھ تیسرے انٹرویو کے لئے ہمیں بلایا گیا۔ اس انٹرویو کے دوران سی ای او صاحب نے پوچھا کہ آپ کا تو گریجوایشن کا نتیجہ ہی ابھی نہیں آیا۔ ہم نے بتایا کہ اپنے کوائف نامے میں ہم نے یہ واضح طور پر لکھا ہے کہ امتحانات دے چکے ہیں اور نتیجے کے منتظر ہیں۔ بولے کہ اگر آپ ناکام ہوگئے تو؟ ہم نے کہا کہ کوئی بات نہیں، جو بھی نتیجہ نکلے گا آپ کو لا کر دیدیں گے پھر آپ کی مرضی، جو چاہیں کرلیجئے گا۔ ہم چونکہ لڑکپن میں ایک کمپنی کے تقریباً جنرل مینیجر رہ چکے تھے اور ایک سال کا عرصہ ہم نے بھرپور محنت کی تھی، لہٰذا ہمیں انونٹری مینیجمنٹ اور اسی نوعیت کے دیگر معاملات کی کچھ سمجھ بوجھ تھی۔ انہوں نے ہم سے انونٹری مینیجمنٹ اور کمپیوٹرائزاڈ انونٹری سسٹمز کے بارے میں پوچھا تو ہم نے اپنے محدود علم کے مطابق جوابات دیدیئے۔ ان جوابات کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم جب بھرتی ہوئے تو ہمیں انونٹری مینیجمنٹ کا شعبہ ہی دیا گیا۔ آخر میں انہوں نے پوچھا، تنخواہ کتنی لیں گے۔ ہم نے حساب لگا کر بتایا، چھے ہزار روپے۔ بولے ٹھیک ہے، آپ چلیے، آپ کو آگاہ کردیا جائے گا۔

انٹرویو سے فارغ ہو کر ہم نیچے ہال میں آئے جہاں باقی امیدواران اپنی باری کے منتظر تھے۔ انہوں نے انٹرویو کی تفصیل پوچھی جو ہم نے من و عن بتادی۔ سب کہنے لگے کہ چھے ہزار روپے تو بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ تمہیں تو نوکری نہیں ملے گی۔ ہم نے کہا کوئی بات نہیں، اب جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔ اب اتنے ہی پیسے ملیں گے تو نوکری کریں گے ورنہ نہیں۔

اگلے روز کال آئی اور ہمیں مبارکباد دینے کے بعد کہا گیا کہ اپنے مکمل طبی معائنے کے لئے فلاں تاریخ کو گلبرگ میں واقع ابراہیم پولی کلینک پہنچیں۔ ہدایت کے عین مطابق ہم مقررہ تاریخ کو کلینک پہنچے جہاں ہمارا ان ان طریقوں سے معائنہ کیا گیا کہ ہمیں لگا جیسے ہم اٹلس ہنڈا نہیں بلکہ پاک فوج میں بھرتی ہورہے ہیں۔ طبی معائنے کی رپورٹ کمپنی کو بھیج دی گئی جس کے موصول ہوتے ہی ہمیں نوکری پر حاضر ہونے کا حکم صادر کیا گیا۔

19 جولائی 2004ء کو ہم پہلے دن نوکری پر پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ ہماری تنخواہ مبلغ سات ہزار روپے سکہ رائج الوقت ہوگی۔ تنخواہ کا سنتے ہی ہم اس سوچ میں پڑ گئے کہ اب اضافی ایک ہزار کا کیا کرنا ہے۔ ساتھ ہی کہا گیا کہ فوراً جنرل اسٹور میں پہنچیں اور ایک وردی بمعہ بوٹ فوراً حاصل کریں اور وہاں اپنا ناپ بھی دیدیں تاکہ مزید وردیاں ناپ کے مطابق سِل سکیں۔

پہلے روز ان سب لوگوں سے تعارف بھی ہوا جو ہمارے ساتھ نوکری کا آغاز کررہے تھے۔ انہی افراد میں ایک طارق صدیق تھے جن کے ساتھ ہمارا معاملہ 'پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہوگئے' والا ہوا۔ تعارف کے دوران پتہ چلا کہ موصوف ہمارے محلے میں ہی رہتے ہیں اور اتفاق سے ہمارے ابتدائی اسکول میں ہم سے ایک دو جماعتیں پیچھے تھے۔ بس اب جو بےتکلف یاری کا سلسلہ چلا تو تاحال جاری ہے۔ تعلق کے اس سلسلے میں جناب ہمارے مرید بھی ہوئے اور پھر انہیں جلد ہی یہ احساس بھی ہوگیا کہ پیر صاحب کی مکمل پیروی نہیں کرنی کیونکہ یہ بگڑ کر سنورنے کا ہنر جانتے ہیں اور پیچھے چلنے والا اس ہنر سے ناواقفیت کی بنیاد پر کسی بھی جگہ مارا جاسکتا ہے۔

خیر، پہلا ہفتہ ہم لوگوں کی اوریئنٹیشن کا تھا جس کے لئے ہمیں فیکٹری کے تمام حصوں اور لاہور میں واقع مرکزی دفتری کا یکے بعد دیگرے دورہ کرنا تھا اور ایک ہفتے کے بعد رپورٹ جمع کروانا تھی۔ ہم نے یہ مرحلہ احسن طریقے سے پورا کیا اور اس کے دوران ہر وہ حرکت بھی کی جس کی انتظامیہ ہم سے توقع نہیں کرتی تھی۔ اوریئنٹیشن رپورٹ جمع کروائی تو ہمیں کہا گیا کہ ہم نہر کے پل پر واقع یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ میں جا کر اپنا کھاتہ کھلوا لیں تاکہ تنخواہ ماہ بہ ماہ اس کھاتے میں منتقل کی جاسکے۔ کھاتہ کھلوا کر واپس فیکٹری پہنچے تو پتہ چلا کہ ہماری تنخواہ دس ہزار روپے ماہوار کردی گئی ہے۔ ہم حیران تھے کہ افسری کے آغاز میں ہمیں اتنا کچھ دے رہے ہیں تو آگے چل کر کیا کریں گے!

اے ایچ ایل کا ماحول بہت خوشگوار تھا اور افسری ہمیں راس بھی بہت آتی ہے، لہٰذا ہم خوب پھلے پھولے۔ ذمہ داری کوئی خاص تھی نہیں، سو پہلی تنخواہ ملتے ہی انگریزی اور اردو کی کچھ بڑی لغات خریدیں اور پنجاب پبلک لائبریری میں اپنی اسٹوڈنٹ ممبرشپ کو لائف ممبرشپ میں تبدیل کروایا۔ فیکٹری کے اندر ہم اپنی معلومات کی بنیاد پر 'دانشور' اور حرکتوں کی بنیاد پر 'غنڈے' سمجھے جاتے تھے۔ ہماری 'غنڈہ گردی' کی ایک مثال سن لیجئے تاکہ آپ کو اندازہ ہوسکے کہ غنڈے ہم صرف انتظامیہ کی نظر میں تھے، عوام کے لئے تو رابن ہُڈ تھے۔

ہوا یوں کہ ایک رات ہم ڈیوٹی پر موجود تھے۔ اس وقت پوری فیکٹری میں موجود سینئر افسر ہم ہی تھے، لہٰذا ہماری حیثیت انچارج کی تھی۔ کھانے کا وقت ہوا تو سب لوگوں کے ساتھ ہم بھی کینٹین پہنچ گئے۔ ہم نے اپنی باری آنے پر کھانے کی طشتری اٹھائی اور اپنی میز پر آ کر بیٹھ گئے۔ ابھی کھانا شروع ہی کیا تھا کہ ہمیں کچھ شور سنائی دیا۔ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ کافی سارے مزدور ایسے ہیں جنہیں کھانا نہیں مل رہا کیونکہ کینٹین انتظامیہ کے غلط اندازے کے باعث کھانا کم بنایا گیا ہے۔ ہم نے کینٹین کے انچارج کو بلا کر وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ رات کی شفٹ میں آنے والے مزدوروں کی تعداد کا ٹھیک سے اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے کھانا کم پڑ گیا ہے۔ ہم نے کہا کہ فوری طور پر کھانا تیار کرو تاکہ ان سب کو کھانا مل سکے۔ جواب ملا کہ کھانا تو کینٹین کے منتظم صاحب کی اجازت سے ہی بن سکتا ہے۔ ہم نے کھانا وہیں چھوڑ دیا اور کہا کہ ہماری منتظم صاحب سے بات کرواؤ اور جب تک ان مزدوروں کو کھانا نہیں ملتا تب تک ہم بھی کھانا نہیں کھائیں گے۔ اس نے بہتیری کوششیں کیں کہ ہم مان جائیں اور جب ہم نہ مانے تو چار و ناچار اسے منتظم صاحب سے ہماری بات کروانی پڑی۔ ہم نے انہیں کہا کہ آپ خود یہاں پہنچیں یا ان لوگوں کو اجازت دیں لیکن کھانا مزدوروں کو ملنا چاہیے ورنہ جو ہوگا اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔ منتظم صاحب نے بحث کرنا چاہی مگر جلد ہی انہیں سمجھ آگئی کہ مزدوروں کو کھانا دئیے بغیر بات نہیں بنے گی۔ خیر، کھانا تیار کر کے مزدوروں کو دیا گیا تو ہم نے بھی ان کے ساتھ مل کر کھا لیا۔

اب ظاہر ہے یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ انتظامیہ اس واقعے پر خاموش رہتی، لہٰذا اگلے ہی روز ہمیں پیشی کے لئے طلب کیا گیا۔ انتظامیہ کے مینیجر بٹ صاحب نے ہمیں بلایا اور لابی میں بٹھا کر پہلے ہم سے اپنا خاندانی تعلق نکالنے کی کوشش کی جسے ہم نے کوئی اہمیت نہیں دی، پھر کہنے لگے کہ سنا ہے کل رات آپ نے شور و غوغا کیا ہے۔ ہم نے پوری صورتحال بتائی تو کہنے لگے کہ آپ انتظامیہ کے آدمی ہیں اور آپ سے ایسی توقع نہیں کی جاتی۔ جواب دیا کہ ہم انسان ہیں اور ہم سے بالکل ایسی ہی توقع کی جانی چاہیے۔ بولے کہ آپ کی پرسنل فائل میں اس واقعے کی رپورٹ لگائی جاسکتی ہے لیکن میں آپ کو صرف وارننگ دے رہا ہوں۔ ہم نے کہا کہ آپ بصد شوق پرسنل فائل میں رپورٹ لگادیں، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کہنے لگے یہ مت بھولیں کہ آپ دنیا کی تیسویں بڑی کمپنی کے ملازم ہیں اور آپ کو کمپنی کل ملا کر 15 ہزار روپے ماہوار دیتی ہے۔ جواب دیا کہ جس نے تیسویں بڑی کمپنی میں پہنچایا ہے وہ پہلی بڑی کمپنی میں بھی لے کے جاسکتا ہے اور کمپنی بھیک نہیں دیتی، محنتانہ ادا کرتی ہے۔ کہنے لگے کہ میں نے آپ کے بارے میں سن رکھا تھا کہ آپ بہت ضدی ہیں اور کسی کی نہیں سنتے، آج دیکھ بھی لیا، آپ جاسکتے ہیں۔ ہم نے شکریہ ادا کیا اور اٹھ کر چلے آئے۔

اسی طرح کے کچھ اور واقعات ہیں جن کی بنیاد پر ہمیں باغی، غنڈہ، سر پھرا اور پتہ نہیں کیا کیا سمجھا جاتا تھا۔ ہم نے کبھی ان باتوں کی تردید اس لئے نہیں کی تھی کہ ہم اپنی 'اصلاح' کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے اور اس بات پر کامل یقین رکھتے تھے کہ 'بٹ صاحب، جس دن آپ نے ظلم کے خلاف بولنا چھوڑ دیا، اس دن آپ انسان نہیں رہیں گے بلکہ ایک ایسے بندر بن جائیں گے جو دیکھنے، بولنے اور سننے کی صلاحیتوں سے قاصر ہے۔'

فیکٹری میں اپنی دوستی بھی ایسے ہی بندوں سے تھی اور ظاہر ہے کوئی دوسرا بندہ ہماری یاری افورڈ بھی نہیں کرسکتا تھا۔ قیوم آفریدی بھی ہمارے جیسا ہی سر پھرا تھا۔ ایک موقعے پر اسٹورز ڈیپارٹمنٹ کے سینئر مینیجر نے ہم پر ایک فضول حکم مسلط کرنے کی کوشش کی تو ہم نے مزاحمت کی۔ اب جو پروانہ جاری ہوا تو ڈیپارٹمنٹ کے بیس میں سے اٹھارہ افسروں نے سینئر مینیجر کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے دستخط کردیئے۔ کاغذ ہم تک پہنچا تو ہم نے پڑھ کر کہا کہ یہ قواعد و ضوابط کے خلاف ہے، ہم اس کی حمایت نہیں کریں گے۔ یہ بات ابھی ہو ہی رہی تھی کہ سینئر مینیجر خود وہاں پہنچ گئے۔ جب دیکھا کہ ہم دستخط نہیں کررہے تو پروانہ ہمیں تھماتے ہوئے بولے کہ دستخط تو آپ کو کرنے ہی پڑیں گے۔ ہمیں پتہ تھا کہ انہیں فرعون بننے کا بہت شوق ہے، سو ہم نے وہ چٹھی پکڑ کر ان کے منہ پر مارتے ہوئے کہا کہ لو، اب کر لو جو کرنا ہے، دستخط تو نہیں کرنے۔ ہم اسی وقت مین اسٹور سے باہر آئے تو آفریدی نظر آیا۔ ہم نے اسے پوری کہانی سنا کر کہا، یہ یاد رکھنا کہ خوشحال خان خٹک کے ساتھ قبائل میں سے آفریدی ہی کھڑے رہے تھے اور اب تمہارا نسلی اور اصلی امتحان ہے۔ آفریدی ویسے ہی اپنا ہم خیال تھا اور اس جذباتی جملے کے بعد تو وہ مزید ڈٹ گیا، لہٰذا ہم دو بندوں نے سینئر مینیجر کا وہ خلافِ قواعد مراسلہ منسوخ کروایا جس کے بارے میں باقی لوگوں کی رائے یہی تھی کہ عمل چاہے نہ کریں لیکن دستخط ضرور کردیں۔

ایک بار سی ای او سے پھڈا ہوا تو ہم نے ڈٹ کر جواب دیئے۔ وہ بات غلط کررہے تھے مگر اس کے باوجود انہوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ انتظامیہ کا ایک نچلے درجے کا افسر ان کی کسی بات کا جواب یوں دے سکتا ہے۔ ہمارے خلاف ایک اور رپورٹ کی گئی۔ جنرل مینیجر بسرا صاحب نے ہمیں طلب کر کے پوچھا، اوئے بٹ، تینوں ڈر نئیں لگدا؟ ہم نے جواب دیا، سر، جے ڈر لگدا تے ایہو جہیاں حرکتاں کردا؟ کہنے لگے، توں نئیں سدھر سکدا۔ ہم نے کہا، کدی وی نئیں سر! ہمارا جواب سن کر بسرا صاحب کی ہنسی چھوٹ گئی۔

ہم نے اپنی ڈگر پر چلتے ہوئے ملازمت کی، اصولوں پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور ایک خاص وقت پر آ کر استعفیٰ لکھ کر انتظامیہ کو تھمایا اور وردی وہاں رکھ کر اپنی خودداری اٹھائی اور فیکٹری سے باہر آگئے۔ اس روز ہم فیکٹری کی گاڑی کی بجائے عام ویگن کے ذریعے گھر پہنچے اور خدا کا شکر ادا کیا کہ انسان کی حیثیت میں ہی واپس آگئے، بندر نہیں بنے۔

یہ سب پڑھ کر آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ بےوقوف اور جاہل ہے جو ایسی نوکری چھوڑ کر آگیا۔ لیکن سچ کہیں تو اپنی اصل کمائی یہ اصول پسندی ہی ہے اور ہم کسی بھی قیمت پر اسے نہیں گنوانا چاہتے۔ اس کمائی کی ایک جھلک دیکھئے کہ اے ایچ ایل چھوڑنے کے چھے سات برس بعد ایک بندہ طارق کے ساتھ مجھے ملنے کے لئے آیا اور کہا کہ 'آپ مجھے نہیں جانتے لیکن میں آپ کو جانتا ہوں۔ مجھے صرف آپ سے ملنے کا شوق تھا کیونکہ فیکٹری میں آپ کے بارے میں لوگوں سے اتنا کچھ سنا ہے کہ میرے دل میں آپ سے ملنے کے لئے شدید خواہش پیدا ہوگئی تھی۔' اب خود ہی سوچیں کہ ایسی عقیدتیں بندے کا دماغ خراب نہ کریں تو اور بھلا کیا ہو!

3 تبصرے:

  1. ما شا الله
    Nice but you didn't felt to mention the reason for resign and the date also.

    ?what job now a days
    I think all you did was perfect but should not resign until getting another good job
    But your way of writing is amazing and should continue

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. میں نے فروری 2005ء کے شروع میں نوکری سے استعفیٰ دیا تھا۔ سب سے بڑی وجہ تو میری تعلیم تھی ان دنوں میں نے اے سی ایم اے میں داخلہ لے لیا تھا۔ سی ای او سے پھڈے کی وجہ بھی یہی بات بنی تھی۔ آج کل میں پڑھاتا ہوں ایک کالج میں اور ساتھ ٹیلیویژن کا کچھ کام کرتا ہوں۔

      حذف کریں
  2. بہت خوب
    ایک اچھی تحریر
    نوکری میں یہ باتیں بہت کم ہی لوگ کرتے ہیں۔ اور خاص کر پرائیویٹ نوکریوں میں تو بہت ہی کم لوگ اس قدر (باغی) ہو سکتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں