تازہ ترین
کام جاری ہے...
جمعرات، 7 اگست، 2014

زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد


تعلیم اور صحت دو ایسے شعبے ہیں جنہیں دنیا بھر میں بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ہر ملک کے بجٹ میں ان دونوں شعبوں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ قومی ترقی کے حوالے سے بھی دیکھا جائے تو یہ دونوں شعبے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان شعبوں کی بہتری کسی بھی ملک کے باشندوں کی جسمانی و فکری تنومندی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ یہی افراد آگے چل کر ملکی بہبود کے لیے وہ خدمات سرانجام دیتے ہیں جو دنیا میں ان ممالک کی سربلندی کا باعث بنتی ہیں۔

پاکستان میں جہاں دوسرے تقریباً تمام شعبے عدم توجہی کے باعث تنزلی کا شکار ہورہے ہیں، وہیں مذکورہ دونوں شعبے بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی ترقی کے رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی ان دونوں شعبوں کا زوال ہے۔ قومی ترقی کے لیے بنیادی اہمیت کے حامل ان شعبوں کو پاکستان میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے کس درجہ نظر انداز کیا جاتا ہے اس بات کا پتہ سرکاری اسپتالوں اور اسکولوں اور کالجوں میں جا کر چلتا ہے۔ اندریں حالات، ملکی ترقی کی رفتار بالکل وہی سکتی ہے جو پاکستان میں ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کی جانب سے انسانی ترقی کے حوالے سے جاری کردہ حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تعلیم اور صحت کے حوالے سے پاکستان خطے کا غریب ترین ملک ہے۔ رپورٹ کے مطابق 187 ممالک کی فہرست میں پاکستان146ویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ، نیپال اور بھوٹان نے گزشتہ برس کی نسبت انسانی ترقی کے ضمن میں بہتری کا رجحان ظاہر کیا ہے، تاہم پاکستان پچھلے برس بھی اسی نمبر پر تھا جہاں اس سال کھڑا ہے۔

11 مئی 2013ء کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان میں وفاقی اور صوبائی سطح پر جو حکومتیں وجود میں آئیں وہ بظاہر ایک دوسرے سے مختلف سیاسی نظریات کی حامل جماعتوں پر مشتمل ہیں۔ سیاسی نظریات میں اختلاف رکھنے کے باوجود چاروں صوبوں اور مرکز میں حکومتی معاملات چلانے پر جو افراد مامور ہیں ان کی کارکردگی کم و بیش ایک جیسی ہی ہے۔ کوئی ایک شعبے کو باقی شعبوں کی قیمت پر ترجیح دے رہا ہے تو کسی نے دوسرا شعبہ پکڑ رکھا ہے لیکن پانچوں میں سے کوئی ایک بھی حکومت ایسی نہیں جس کی کارکردگی کو تمام شعبوں کے حوالے سے معیاری نہیں تو کم از کم تسلی بخش قرار دیا جاسکے۔

اٹھارھویں ترمیم کے بعد تعلیم اور صحت کے شعبے صوبائی حکومتوں کے حوالے کردیئے گئے تھے۔ گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے مسلم لیگ (نواز)، تحریکِ انصاف، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی سمیت تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتیں کہیں نہ کہیں انتظامی حیثیت میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ اس کردار کا نتیجہ کیا نکل رہا ہے وہ یو این ڈی پی کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ کی صورت میں آپ کے سامنے ہے کہ ہمارا ملک ترقی کے حوالے سے ’زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد‘ والی صورتحال سے دوچار ہے۔

سیاسی نظریات کے اختلاف کے بنیاد پر ایک دوسرے کو دن رات الزامات دینے والے کارکردگی کی بنیاد پر خود کو بہتر ثابت کرنے کی حکمت عملی پر کسی بھی طور آمادہ نظر نہیں آتے۔ موجودہ صورتحال میں سب سے زیادہ شور تحریکِ انصاف کی طرف سے مچایا جارہا ہے اور کسی نادیدہ ہاتھ کے اشارے پر مسلم لیگ (نواز) کی مرکزی حکومت کو غیرمستحکم کرنے کی بھرپور کوشش بھی کی جارہی ہے۔ اول الذکر جماعت سے وابستہ افراد کے سامنے جب خیبر پختونخوا میں ان کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جاتے ہیں تو وہ ان سوالات کے تسلی بخش جواب دینے کی بجائے سوال اٹھانے والوں کو ہی کوسنے دینے لگتے ہیں۔

پنجاب اور مرکز میں بلا شراکت غیرے اقتدار پر براجمان مسلم لیگ (نواز) کا بھی یہی حال ہے کہ ایک سال سے زائد عرصہ گزر چکنے کے باوجود عوامی مسائل کا حل محض کھوکھلے نعروں کی صورت میں فراہم کیا جارہا ہے۔ توانائی کا بحران جو پوری معیشت کو ڈبو چکا ہے اور جو کچھ باقی رہ گیا اس کو بھی نگلنے کے در پے ہے، اس کے حوالے سے مسلم لیگ (نواز) کی جانب سے ابھی تک کوئی ایسی حکمت عملی سامنے نہیں آئی جسے اطمینان بخش قرار دیا جاسکے۔

ملک اگر کھوکھلے نعروں کی بنیاد پر ترقی کرسکتے تو آج پاکستان دنیا کا ترقی یافتہ ترین ملک ہوتا لیکن ایسا ہو نہیں سکتا اور افراد کو باتوں، دعووں اور وعدوں سے آگے بڑھ کر عملی جدوجہد بھی کرنا پڑتی ہے۔ سیاسی میدان کے کھلاڑیوں کو چاہئے کہ وہ عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد ایک دوسرے کی پتلون کا پرچم بنا کر ہوا میں لہرانے پر ہی اکتفا نہ کریں بلکہ قومی ترقی کے لیے بھی کچھ ایسے اقدامات کریں جو اقوامِ عالم میں ہماری توقیر کا باعث بن سکیں۔

ایک حدیث کے مفہوم کے مطابق مومن وہ ہے جس کا آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے بہتر ہو۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہم لوگ مومن کی تعریف کے عین برعکس ہیں کہ ہمارا ہر آنے والا دن گزشتہ دن سے بدتر ثابت ہورہا ہے۔ یو این ڈی پی کی انسانی ترقی کے حوالے سے رپورٹ میں پاکستان کا اس برس بھی 146ویں نمبر پر برقرار رہنا ہماری قومی زندگی اور اجتماعی ترجیحات کے حوالے سے بہت سے سوالات پیدا کرتا ہے اور ان سوالات کے جوابات کسی اور کو نہیں بلکہ پاکستان کی آئندہ نسلوں کو درکار ہیں۔

پس نوشت: یہ مضمون روزنامہ 'نئی بات' کے ادارتی صفحات پر 06 اگست، 2014ء کو شائع ہوا۔

3 تبصرے:

  1. محترم ۔ آپ سے التماس ہے کہ اس تحریر کا عنوان بدل دیجئے ۔ آپ نہیں جانتے کہ یہ محاورہکیسے بنا اور اس کی رمز کیا تھی ۔ از راہِ کرم آئیندہ بھی محاورے استعمال کرتے ہوئے خیال رکھیئے کہ اس میں نہ تو اللہ یا اللہ کے کسی نبی ہو اور نہ کسی بزرگ ہستی کا اور نہ ان میں سے کسی کی طرف اشارہ ہو

    رہی ملکی ترقی کی بات تو یہ بتا دیجئے کہ کتنے فیصد پاکستانی ہیں جو مکلی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں ایک لاکھ میں سے ایک بھی نہیں ۔ پھر مطالبات کیسے ؟ ہم لوگوں نے مطالبات کے علاوہ بھی کچھ سیکھا ہے ؟
    ہم میں سے کتنے پڑھے لکھے ہیں (میں اَن پڑھوں کی بات نہیں کر رہا) جو چوراہے میں بتی لال ہو اور ٹریفک پولیس والا موجود نہ ہو تو گاڑی روک کر چند منٹ انتظار کر لیتے ہیں ؟
    اور کتنے ہیں جو سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے دوسری گاڑی کو راستہ دیتے ہیں ؟
    آیئے آج فیصلہ کریں اور اس پر پابندی سے عمل کریں کہ ہم کبھی کسی بھی قانون کے خالف کام نہیں کرین گے اور اپنے حق پر زور دینے ک بجائے دوسروں کو اُن کا حق دیں گے ۔ پھر لیڈر بھی اچھے چُنے جائیں گے اور حاکم بھی اچھے ہوں اور ترقی بھی تیز رفتار ہو گی
    اللہ کا فرمان اٹل ہے
    سورت13الرعدآیت11إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ ۔ اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے
    سورت 53 النّجم آیت 39۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی
    اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

    جواب دیںحذف کریں
  2. سر، بہت شکریہ۔ مجھے اس محاورے کی تاریخ معلوم نہیں، اگر آپ اس سلسلے میں میری راہنمائی فرمائیں تو میں ممنون ہوں گا۔
    انفرادی رویوں کے حوالے سے آپ نے جو بات کی، میں اس سے متفق ہوں اور اس حوالے سے میری ایک پرانی تحریر بھی اس بلاگ پر موجود ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. مغلیہ بادشاہ اورنگزیب نے انگریزوں اور ولندیزیوں کی بحثیت تاجر کمپنی دفاتر کھولنے کی درخواست پر منظوری دی ۔ ولندیزی تو تجارت کرتے رہے لیکن انگریزوں نے مکاری کرتے ہوئے بغیر وردی کے فوجیوں کی خفیہ چھاؤنی بنا لی اور اندر ہی اندر کئی غریبوں اور ضمیر فروشوں کو پیسے سے اپنے ساتھ ملا لیا اور آہستہ آہستہ پاؤں پھیلاتے ہندوؤں کو مسلمان بادشاہوں کے خلاف صف آراء کرتے اور مزید تجارت بڑھ جانے کے پردے میں انگلستان سے فوجیوں کی کمک منگواتے رہے ۔ خیال رہے اُس زمانہ میں برطانیہ کی حکومت کے وزراء اور سپہ سالار وغیرہ بحری قزاق ا ور لُٹیرے ہوا کرتے تھے ۔
    اوورنگزیب کے بعد بننے والے مغل بادشاہ اپنی رعنائیوں یا عیاشیوں میں لگے رہے اور انگریزوں کی عیاری کی طرف توجہ نہ دی ۔ انگریزوں نے ہندوؤں خاصکر مرہٹوں کو اپنا حلیف بنا کر بغاوت کروائی اور اُنیسویں صدی کے شروع ہی میں بنگال ۔ سندھ ۔ پنجاب اور دہلی آگرہ کو چھوڑ کر باقی ہندوستان پر حکومت قائم کر لی تھی ۔ 1843ء میں راجپوتانہ اور سندھ کے راجپوتوں کو ساتھ ملا کر سندھ پر پھر جموں کشمیر پر قبضہ کیا ۔ پنجاب پر سکھوں کی حکومت تھی جن کے پاس پنجاب کا بنا ہوا مؤثر اسلحہ یعنی بندوقیں اور توپیں وغیرہ تھا ۔ چنانچہ انگریزوں کو شکست ہوئی ۔ پھر برطانیہ بہت سے کرائے کے فوجی منگوائے اور ہندوستان سے ہندوؤں اور غدار مسلمانوں کو بھرتی کر کے پنجاب پر حملے شروع کئے اور 1849ء میں سکھوں کو شکست دے کر پنجاب پر قابض ہو گئے ۔ ابھی دہلی اور آگرہ میں مسلمانوں کی علامتی حکومت باقی تھی ۔ 1857ء میں حیدر آباد دکن اور بنگال میں مسلمان انگریزوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے اور پورے ہندوستان میں جنگ شروع ہو گئی جسے جنگِ آزادی کا نام دیا گیا ۔ اس وقت انگریزوں کا ساتھ ہندوؤں اور دولت کے بھوکے اور لُٹیرے مسلمانوں (جو فی زمانہ سندھ اور پنجاب کے وڈیرے یا بڑے زمیندار ہیں) نے دیا ۔ انگریز جیت گئے ۔ دہلی و آگرہ پر قبضہ کے بعد انہوں نے مسلمانوں کی طاقت یعنی دینی اساس کو اعلیٰ منصوبہ بندی اور نہائت چالاکی کے ساتھ منتشر کرنا شروع کیا ۔ اس زمانہ میں اس طرح کی کئی اصطلاحات لطیفے اور محاورے لوگوں میں پھیلانے جیسے پڑھیں فارسی بیچیں تیل یہ دیکھو قسمت کے کھیل ۔ ایک جو آپ نے عنوان بنایا ہے اور لکھے موسیٰ پڑھے خدا ۔ اس کے علاوہ کئی لطیفے اور محاورے تھے جو مجھے میرے دادا جان نے بچپن میں بتائے تھے ۔ ان میں سے بیشتر میں بھول چکا ہوں کچھ ایسے یاد ہیں جو میں زبان پر لانا گناہ سمجھتا ہوں ۔ دہلی ۔ لاہور اور کئی دوسرے بڑے شہروں میں قائم جامعات کو ختم کر دیا اور ان کے اساتذہ کو قتل کر دیا گیا ۔ لائیبریریوں کی کُتب سب ضائع کر دی گئیں ۔ تاریخ اپنی مرضی کی لکھائی جس میں مسلمان بادشاہوں کو یا تو ظالم دکھایا یا عیّاش ۔ صرف چند مسلمانوں کو تھوڑا سا اچھا دکھایا کیونکہ اُن کے قصے زبان زدَ عام تھے ۔ یہی نہیں تمام سکالروں کو ہلاک کرنے کے بعد جاہل مولویوں کی ایک کھیپ تیار کی جن کے ذریعہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی مُہم شروع ہوئی ۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ حکومتی سطح پر آج تک درست تاریخ نہیں چھاپی گئی اور نہ مساجد میں دینی تعلیم مستند مدرسوں سے حاصل کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں تحقیق کرنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو ہیں اُنہیں کوئی پوچھتا نہیں ۔ آپ صرف اپنے شہر کی تمام مساجد کا سروے کر لیجئے ۔ آپ کو تمام اماموں میں سے 20 فیصد بھی دین کی منظور شدہ سند رکھنے والے نہیں ملیں گے
    تبصرہ بہت لمبا ہو گیا ہے جس کیلئے معذرت خواہ ہوں ۔ آپ نے پوچھا تو آپ تک مختصر معلومات پہنچانا میرا فرض تھا جو الحمدللہ میں کسی حد تک پورا کرنے میں کامیاب ہوا

    جواب دیںحذف کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں