تازہ ترین
کام جاری ہے...
ہفتہ، 16 اگست، 2014

مسئلہ زبان کا نہیں، اقتدار کا ہے


گزشتہ ماہ کے وسط میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے مسلم لیگ (نواز) کی رکن اسمبلی ماروی میمن کی جانب سے مقامی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کے بل کو اکثریت رائے سے مسترد کردیا۔ بل میں بلوچی، بلتی، براہوی، پنجابی، پشتو، شینا، سندھی اور سرائیکی کو اردو کے ساتھ قومی زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں، نیشنل لینگوئج کمیشن کی جانب سے تسلیم کی گئی دیگر تمام بڑی مادری زبانوں کے لئے بھی مذکورہ بل میں یہی مانگ کی گئی تھی۔ 

قائمہ کمیٹی جب یہ بل پیش ہوا تو اس کے حق میں صرف ایک ووٹ پڑا جو مسلم لیگ (نواز) کے رکن اسمبلی سردار امجد فاروق کھوسہ نے ڈالا۔ ماروی میمن خود چونکہ قائمہ کمیٹی کی رکن نہیں ہیں، لہٰذا انہیں اس بل کے لئے ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں تھی۔ ادھر، تحریک انصاف اور جمیعت علمائے اسلام (ف) کے ارکان نے بل کی مخالفت کی جبکہ ایم کیو ایم کے رکن نے ووٹ ڈالنے سے ہی گریز کیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سندھی کے لئے قومی زبان کے درجے کا مطالبہ کرنے والے پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی ایاز سومرو نے بھی بل کے مخالف ووٹ دیا۔

ماروی میمن نے اپنے پیش کردہ بل میں جس نیشنل لینگوئج کمیشن کی بات کی ہے، وہ بھی ابھی تک وجود میں نہیں آیا اور مسلم لیگ (نواز) کے دیگر سیاسی وعدوں کی طرح انتخابی منشور کے سردخانے میں ہی پڑا ہوا ہے۔ ماروی میمن نے 2011ءمیں بھی ایک ایسا ہی بل پیش کیا تھا جسے مسترد کردیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں، سینیٹ میں بھی اے این پی کے حاجی عدیل کی جانب سے پیش ہونے والا اسی نوعیت کا ایک بل پہلے ہی رد کیا جاچکا ہے۔

حاجی عدیل یا ماروی میمن کی جانب سے مقامی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے والے بلوں کی بات تو سمجھ میں آتی ہے اور اس بات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ ان تجاویز پر کس حد تک عملدرآمد ممکن ہے، لیکن گزشتہ اسمبلی میں پیش کیا جانے والا ایک بل ناقابل فہم قسم تھا اور شکر ہے کہ اسے مسترد بھی کردیا گیا۔ مذکورہ بل میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اردو کو قومی زبان کی بجائے دوسری پاکستانی زبانوں جیسا درجہ دیدیا جائے اور جب تک یہ زبانیں ترقی یافتہ صورت اختیار نہیں کرتیں، انگریزی متبادل زبان کے طور پر دفاتر میں رائج رکھی جائے۔ ہمیں اس بل اور اس کی تفصیلات کے بارے میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے تحقیقی مجلے ’معیار‘ کے جنوری-جون 2013ءکے شمارے کے ادایے کی وساطت سے علم ہوا۔

یہ تو ایک حقیقت ہے کہ زبانوں کی ترویج و اشاعت ان کے ساتھ وابستہ روزگار کے ذرائع کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہم پر یہ حقیقت واضح ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگنی چاہئے کہ اردو اور مقامی زبانیں پاکستان میں دستور کے آرٹیکل 28 کے تحت تحفظ حاصل ہونے کے باوجود تنزلی کا شکار کس وجہ سے ہیں۔ ویسے بھی ہمارے ہاں دستور میں شامل باقی آرٹیکلز پر کون سا عملدرآمد ہورہا ہے جو اس ایک آرٹیکل پر عملدرآمد نہ ہونے سے کوئی مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔

خیر، ماروی میمن کے پیش کردہ بل میں کہا گیا ہے کہ تمام قومی ریاستوں میں تمام بڑی مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہوتا ہے، لہٰذا پاکستان میں بھی تمام بڑی مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا جانا چاہئے۔ یہ بات حقائق کے منافی ہے۔ ہمارے ساتھ موجود بھارت میں صرف انگریزی اور ہندی کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے جبکہ اردو، پنجابی، سندھی اور بنگالی سمیت بائیس زبانوں کو آئین کے آٹھویں شیڈول کے تحت سرکاری زبانیں قرار دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ بھارت میں ریاستوں یا صوبوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قانون سازی کے ذریعے کسی زبان کو صوبائی سطح پر سرکاری زبان کا درجہ دے سکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہاں آئین کے تحت سرکاری زبان کا درجہ حاصل کرنے والی بڑی مادری زبانوں کو یہ اہمیت بھی حاصل ہے کہ مقابلے کے امتحانات میں حصہ لینے والے امیدوار ان میں سے کسی بھی زبان کو اختیار کرسکتے ہیں۔

بھارت کی مثال کو سامنے رکھ کر پاکستان کی جانب دیکھا جائے تو یہاں صورتحال یہ ہے کہ اردو کو آئین کے آرٹیکل 251 کے تحت قومی زبان کا درجہ حاصل ہونے کے باوجود اس قابل نہیں سمجھا جاتا کہ مقابلے کے امتحانات میں امیدوار اسے اختیار کرسکیں۔ 1973ءکے آئین میں اردو زبان کے نفاذ کے لیے پندرہ برس کا دورانیہ مقرر کیا گیا تھا لیکن آج چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر چکنے کے باوجود سرکاری سطح پر اردو کو کہیں بھی نافذ نہیں کیا گیا۔ حد یہ ہے کہ 1979ءمیں اردو زبان کے نفاذ اور ترویج و اشاعت کے لیے وفاقی سطح پر قائم کیا جانے والا بڑا اور مرکزی ادارہ جو ایک وقت تک ’مقتدرہ قومی زبان‘ کے نام سے جانا جاتا تھا اور ایک خودمختار ادارے کی حیثیت سے کام بھی کررہا تھا، اب اپنا اقتدار کھونے کے بعد ’ادارہ فروغِ قومی زبان‘ بن کر رہ چکا ہے اور وزارتِ اطلاعات و نشریات اور قومی ورثہ کے ذیلی ادارے کی حیثیت سے زندگی کے دن پورے کررہا ہے۔

ہمارے ہاں مقامی زبانوں کا مسئلہ تو ایک طرف رہا، پاکستان میں مقتدر طبقات کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ اردو کو ہی اس حد تک اہمیت حاصل ہوجائے کہ وہ حقیقتاً قومی زبان کے درجے پر فائز ہوسکے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اگر اردو کو مقابلے کے امتحانات اور دیگر اہم معاملات کے لیے وسیلہ ¿ اظہار بنانے کی اجازت دیدی جائے تو مخصوص اداروں اور خاندانوں کی اجارہ داری ٹوٹ جائے گی اور ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ایسے عام پاکستانی مقتدر و مختار بن جائیں گے جن کی گردنوں میں غلامی کا طوق پہنا کر بیوروکریٹ اور سیاستدان ان پر نسل در نسل حکومت کرتے چلے آرہے ہیں۔

پس نوشت: یہ مضمون روزنامہ 'نئی بات' کے ادارتی صفحات پر 12 اگست، 2014ء کو شائع ہوا۔

5 تبصرے:

  1. اس مضمون میں باتیں درست کہی گئی ہیں ۔ البتہ کچھ تشنگی رہ گئی ہے کہ اس تمام قضیئے کی تاریخ کیا ہے ۔ مختصر یہ کہ 1973ء کے آئین میں 15 سال کی مدت مقرر ہوئی مگر وہ حکومت جب تک قائم رہی اس پر صرف یہ پیش رفت ہوئی کہ سکولوں میں اُردو لازم تھی اور بی اے تک سوائے لسانی مضامین (انگریزی ۔ فارسی ۔ عربی وغیرہ) تمام مضامین میں طالب علم اُردو یا انگریزی میں سے کسی بھی زبان کو اختیار کر سکتا تھا اور اس کی تحریری اطلاع دینا ہوتی تھی ۔ یہ سہولت ختم کر دی گئی ۔ دسویں یا شاید چودہویں تک اُردو لازمی مضمون قرار دیا گیا تھا ۔ اسے ختم کر کے 1947ء سے پہلے کے نظام کو بحال کر دیا گیا ۔ مقتدرہ اُردو زبان میں اہل لوگ تعینات کرنے اور اسے کام تیزی سے شروع کرنے کا حُکم ضیاء الحق کی مارشل لاء حکومت نے دیا ۔ میں نے اس ادارہ کے شائع کردہ اُردو تراجم سے کافی علم حاصل کیا تھا اور اس کے دفتر واقعہ ایچ 8 اسلام آباد بھی گیا جہاں بیٹھے اہلکاروں نے میری بہت حوصلہ افضائی کی ۔ 1988ء میں جمہوریت آئی تو مقتدرہ قومی زبان کا ادارہ یتیم بنا دیا گیا ۔ باقی صورتِ حال آپ نے لکھ دی ہے ۔ رہے ہم عوام تو یہ لطیفہ مشہور ہے ”انگریز ترقی نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا ؟ اُن بچہ بچہ انگریزی بولتا ہے“۔ میں کئی غیر ممالک میں رہا ہوں ۔ وہاں مجھ سے یہ سوال پوچھا جاتا تھا ”کیا پاکستان کی زبان انگریزی ہے ؟“ میں ” نہیں “ کہتا تو کہتے ”پھر پاکستانی آپس میں انگریزی میں بات کیوں کرتے ہیں؟“ میں کہتا ”مجھے کب انگریزی بولتے دیکھا ہے؟“ تو کہتے ” تم پاکستانیوں کی طرح نہیں ہو“۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. سر، بےحد شکریہ۔ یہ واقعی بہت اہم مسئلہ ہے کہ ہمارے ہاں جو لوگ تعلیمی مدارج میں ذرا آگے بڑھ جاتے ہیں وہ اپنی مادری یا قومی زبان میں بات کرنے کو کسرِ شان سمجھنے لگتے ہیں اور افسوس کی بات ہے کہ یہ مسئلہ پنجابیوں کے ہاں بہت زیادہ ہے۔

      حذف کریں
  2. اپ کی بات درست ہے ۔ وجہ خواہ کچھ بھی ہو ۔ کچھ پنجابی کہلانے والوں کی ایک اور عادت بھی ہے کہ غیر پنجابی کی تابعداری کرنے کو تیار ہو جاتا ہے لیکن پنجابی کی ٹانک کھیچتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  3. قومی زبان کا معاملہ ، کسی بھی قوم کی عزتِ نفس اور شناخت سے جُڑا ہوا ہے. . .اگر کوئی قوم اپنی زبان کو اپنانے میں شرمندگی یا ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہے تو بس جان لیں کہ وہ اپنے وجود اور نظریات پہ کبھی فخر نہیں کرسکتی۔۔۔۔۔فرد ہو یا قوم، جب اپنے وجود پہ فخر نہ کرسکے تو اس سے بڑی اذیت اور شکست کو سامنا نہیں کرسکتی۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. قومی زبان کا معاملہ، کسی بھی قوم کی عزتِ نفس سے جُڑا ہوتا ہے۔ جب کوئی قوم یا فرد اپنی لسانی شناخت پر شرمندگی محسوس کرنے لگے تو جان لیں کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور ہزیمت یا شکست نہیں ہو سکتی۔

    جواب دیںحذف کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں