تازہ ترین
کام جاری ہے...
اتوار، 11 جنوری، 2015

"اپنا مریض اٹھا کر گھر لے جاؤ!!!"


کیا آپ نے احمد ندیم قاسمی کا افسانہ 'سفارش' پڑھا ہے؟ اگر نہیں پڑھا تو ضرور پڑھیں۔ اس میں آپ کو ہمارے معاشرے کی ایک ایسی جھلک دیکھنے کو ملے گی جو ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے موجود تو ہوتی ہے لیکن ہم اسے کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے اور یوں ہمارا معاشرہ ایک ایسی دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ قاسمی صاحب کے دیگر افسانوں کی طرح مذکورہ افسانے میں بھی بہت ہی خوبصورت انداز سے معاشرے میں پائی جانے والی جہالت اور ظلم کی مختلف جہتوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔

مجھے یہ افسانہ اس لیے یاد آگیا کیونکہ میری اس تحریر کا محرک بھی ویسی ہی ایک صورتحال ہے جس کا سامنا قاسمی صاحب کے اس افسانے کے مرکزی کردار کو کرنا پڑا تھا۔ ہوا یوں کہ تقریباً دو ہفتے پہلے ایک انتہائی قریبی دوست کے والد کے دماغ کی شریان پھٹ گئی اور ساتھ ہی ان پر فالج کا حملہ بھی ہوا۔ ابتدائی طبی امداد کے لیے انہیں فوری طور پر قریبی اسپتال میں لیجایا گیا جہاں انتظامیہ کے ایک بڑے عہدیدار سے میرے دوست کی واقفیت کی بنیاد پر اس کے والد کو اسپتال میں داخلے کے ساتھ ساتھ غیرمعمولی توجہ بھی دی گئی۔

چند دن کے بعد اسپتال والوں نے کہا کہ اب آپ انہیں جنرل اسپتال لے جائیں تاکہ ان کے دماغ کا علاج بہتر طور پر ہوسکے۔ لواحقین نے مریض اٹھایا اور جنرل اسپتال پہنچ گئے۔ وہاں بھی داخلے کے لیے سفارش کی ضرورت پڑی تو میرے دوست کے ایک ہمکار کا بھائی کام آیا اور یوں مریض کو اس اسپتال میں جگہ مل گئی۔ چند روز گزرنے کے بعد اسپتال والوں نے اس نیم بےہوش مریض کے گھر والوں سے کہا کہ ہم مریض کو یہاں مزید نہیں رکھ سکتے، لہٰذا آپ انہیں گھر لے جائیں۔ لواحقین نے ڈاکٹروں کی منت سماجت کی کہ ہم اس اسپتال سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر رہتے ہیں اور مریض نیم بےہوش ہیں تو اگر گھر لیجا کر ان کی حالت بگڑ گئی تو ہم کیا کریں گے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ ہم اب تک جو کرسکتے تھے ہم نے کیا مگر اب مریض کو ہم مزید یہاں پر نہیں رکھ سکتے۔ لواحقین بضد رہے کہ ہم مریض کو اس حالت میں گھر نہیں لے کر جاسکتے۔ ڈاکٹروں اور نرسوں نے مریض پر توجہ دینا بند کردی اور یوں چار و ناچار لواحقین کو اپنا مریض اسپتال سے لے کر جانا پڑا۔

میں نے اپنے دوست سے اس کے والد کا حال پوچھنے کے لیے فون پر رابطہ کیا تو اس نے مجھے پوری صورتحال بتائی۔ میں نے اسے کہا کہ مریض کو گھر لانے سے پہلے ایک بار مجھ سے رابطہ تو کرلیا ہوتا تاکہ میں اسپتال میں کسی سے بات کرلیتا۔ خیر، میرے دوست نے بتایا کہ اس کے والد اب بھی نیم بےہوشی کی حالت میں ہیں اور انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ اب کیا کریں۔ میں نے اسے کہا کہ میں کچھ کرتا ہوں۔ اگلی کال میں نے اپنے ایک عزیز کو ملائی جو ایک بڑے اسپتال کے شعبۂ اعصاب و پٹھہ میں نیورو فزیشن ہیں اور انہیں ساری صورتحال بتانے کے بعد کہا کہ آپ مریض کو اپنے اسپتال میں داخل کرلیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ کل صبح ہی انہیں بھیج دیں۔

اگلی صبح میرا دوست اپنے والد کو ایمبولینس میں ڈال کر اسپتال لے گیا تو میرے عزیز نے مریض کو داخل تو کروا دیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہم دو تین روز سے زیادہ انہیں اسپتال میں جگہ نہیں دے سکتے۔ میں شام میں اپنے دوست سے ملنے پہنچا تو اس نے مجھے صورتحال سے آگاہ کیا۔ میں نے اپنے عزیز پر مزید بوجھ ڈالنے کی بجائے اپنے ایک ایسے دوست سے رابطہ کیا جو مذکورہ شعبے کے سربراہ کو جانتے تھے۔ میں نے انہیں صورتحال بتائی اور کہا کہ مریض کی حالت ایسی نہیں ہے کہ انہیں گھر پہ رکھا جاسکے، لہٰذا آپ ڈاکٹر سے کہیں کہ انہیں مریض کی حالت سنبھلنے تک یا کم از کم چند دن مزید یہاں رہنے دیں۔

ان ڈاکٹر صاحب سے رابطہ بھی ہوگیا اور میرے دوست کے والد کو اسپتال میں مزید چند روز رہنے کی مہلت بھی مل گئی لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ اس شہر کے مختلف اسپتالوں میں روزانہ لائے جانے والے ہزاروں مریض جن کی سفارش کرنے والا کوئی نہیں، ان کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا اور جب علاج مکمل ہوئے بغیر ڈاکٹر ان کے لواحقین سے یہ کہتے ہوں گے کہ اپنا مریض اٹھا کر گھر لے جاؤ تو وہ بیچارے کیا کرتے ہوں گے؟ کیا صحتمند اور تندرست زندگی گزارنا صرف ان لوگوں کا حق ہے جو وسائل پر قابض ہیں؟ کیا ہمارے سیاسی قائدین میں سے کسی ایک کو بھی اندازہ ہے کہ اس ملک کے عوام کو علاج معالجے کے حوالے سے کیا کیا مسائل درپیش ہیں اور ان کا حل کس طرح ممکن ہے؟

ایک تبصرہ:

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں