تازہ ترین
کام جاری ہے...
بدھ، 11 فروری، 2015

حصولِ تازہ کھانا مہم


پنجاب کے بے تاج بادشاہ شہباز شریف صوبے کے مختلف شہروں اور علاقوں میں عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بعد ایسے بیانات دینے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں جن کو سن یا پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ موصوف سے زیادہ اس ملک کے عوام کا دکھ کوئی اور محسوس کر ہی نہیں سکتا۔ ہر سال مون سون میں لاہور کے لکشمی چوک میں لمبے بوٹ پہن کر پہنچ جانا آپ کا محبوب مشغلہ ہے، اسی لیے گزشتہ چھے برس سے مسلسل صوبے پر حکمرانی کرنے کے باوجود آپ نے نکاسیِ آب کا مسئلہ حل نہیں کروایا کہ یوں لمبے بوٹ پہن کر بارش کے پانی میں سیر کرتے ہوئے تصویریں کھنچوانے کا انتہائی قابلِ فہم جواز ختم ہوجائے گا۔

عوامی دکھ درد کا احساس کرتے ہوئے شہباز شریف نے حال ہی میں ایک اہم فیصلہ کیا ہے۔ انہیں چونکہ وقت بے وقت مختلف قسم کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے یہاں وہاں آنا جانا پڑتا ہے اور اس دوران کبھی کبھار تازہ کھانا ملنا مشکل ہوجاتا ہے، اور تازہ کھانا نہ ملنے کی وجہ سے وزیراعلیٰ کی طبعِ نازک پر برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جس سے صوبے کے عوام بھی متاثر ہوں گے، لہٰذا آپ نے سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ (ایس اینڈ جی اے ڈی) سے کہا ہے کہ فوری طور پر ان کے لیے ساڑھے تینتیس لاکھ روپے مالیت کی 'رِیفر کنٹینر' نامی پُرتعیش گاڑی خریدی جائے تاکہ اجلاسوں کے دوران انہیں تازہ کھانا مہیا کیا جاسکے۔

وزیراعلیٰ کے پرسنل سیکرٹری نے سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی سے محض مذکورہ گاڑی خریدنے کا ہی نہیں کہا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ گاڑی کی خریداری عمل کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ شعیب سلیم نامی ایک وکیل کا ضمیر پتہ نہیں کس وجہ سے بیدار ہوگیا ہے اور انہوں نے ہمارے انتہائی دردِ دل رکھنے والے وزیراعلیٰ کے لیے گاڑی خریدنے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دیتے ہوئے کہا ہے کہ جس ملک میں لوگوں کو تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات کے لالے پڑے ہوئے ہیں وہاں شہباز شریف کے لیے ایسی گاڑی خریدنا دستور کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے۔ مزید دلخراش بات یہ ہے کہ درخواست کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے عدالتِ عالیہ کے جج جناب شمس محمود مرزا نے صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے کہ پندرہ روز کے اندر اس سلسلے میں جواب دیا جائے۔

ہم چونکہ توہینِ عدالت کی سزا سے ڈرتے ہیں اس لیے عزت مآب جج صاحب کو تو کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن اس وکیل کو جھولیاں اٹھا اٹھا کر بددعائیں دینے کو دل چاہ رہا ہے۔ کوئی پوچھے کہ بھئی یہ ساڑھے تینتیس لاکھ روپے کی ہمارے انمول وزیراعلیٰ کے آگے بھلا کیا حیثیت ہے۔ اگر صوبے میں قابلِ ذکر تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں تو بھلا اس میں وزیراعلیٰ کا کیا قصور ہے؟ اور ویسے بھی صاف پانی مہیا نہ کرنا کوئی ایسا جرم تو نہیں ہے نا جس کی پاداش میں آپ صوبے کے بےتاج بادشاہ کو اجلاس کے دوران تازہ کھانا حاصل کرنے کے انتہائی بنیادی حق سے محروم کردیں!

ویسے تو کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ، لیکن پھر بھی ہماری عدالتِ عالیہ سے دست بستہ گزارش ہے کہ شعیب سلیم کی درخواست کو نہ صرف رد کیا جائے بلکہ الٹا ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے احکامات بھی جاری کیے جائیں کہ ان کی جرات کیسے ہوئی ہمارے ہمدردی کے جذبے سے سرشار وزیراعلیٰ کی حصولِ تازہ کھانا مہم میں ٹانگ اڑانے کی۔ لگے ہاتھوں وزیراعلیٰ سے بھی ایک گزارش ہے کہ مختلف اجلاسوں کے دوران آپ کے کپڑوں پر سلوٹیں پڑ جاتی ہیں جو صوبے کے عوام کو ہرگز اچھی نہیں لگتیں، اس لیے ایک ایسی گاڑی جلد از جلد خریدنے کے احکامات جاری کیے جائیں جس میں آپ کے لیے بیس پچیس جوڑے استری شدہ حالت میں ہر وقت موجود رہیں تاکہ آپ ہر اجلاس کے بعد سلوٹوں سے پاک نیا سوٹ پہن کر جلوہ گر ہوں۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں