تازہ ترین
کام جاری ہے...
جمعہ، 5 جون، 2015

عزت مآب بمقابلہ ذلت مآب


27 مئی کو پشاور ہائیکورٹ کے جج جناب اکرام اللہ خان بنوں کینٹ جارہے تھے کہ وہاں ڈیوٹی پر تعینات فوجی اہلکاروں نے انہیں روک لیا اور مبینہ طور پر ان کو سرکاری کارڈ دکھانے کو کہا اور کینٹ میں داخلے سے منع کردیا۔ جب یہ واقعہ پیش آیا اس وقت جج صاحب اپنی سرکاری گاڑی میں سوار تھے اور ان کے ساتھ حفاظتی عملہ بھی موجود تھا۔ واقعہ کے فوراً بعد پشاور ہائیکورٹ بنوں بنچ کے ایڈیشنل رجسٹرار کی طرف سے سیکرٹری دفاع، حکومتِ پاکستان، سیکرٹری داخلہ و قبائلی امور، خیبر پختونخوا، 325 بریگیڈ بنوں کے بریگیڈئیر اور بنوں کے ڈپٹی کمشنر کو نوٹس جاری کیا گیا کہ اگلے ہی روز یعنی 28 مئی کو وہ بنوں میں پشاور ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ کے سامنے اصالتاً یعنی خود پیش ہوں۔

اس معاملے میں مزید کیا پیشرفت ہوئی اور آگے معاملات کہاں تک جائیں گے، یہ میرا موضوع نہیں ہے۔ مجھے تو جج صاحب کے روکے جانے کے واقعے اور اس کے بعد چار اہم عہدوں پر فائز افراد کو جاری ہونے والے نوٹس سے غرض ہے اور میں انہی امور پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس پورے قضیے میں میرا جھکاؤ دونوں میں سے کسی بھی فریق کی جانب نہیں ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہاتھیوں کی لڑائی ہے جس کا ہم عام لوگوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ تاہم میرا یہ ماننا ہے کہ اگر دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر سیکیورٹی اہلکار کنٹونمنٹ میں داخلے پر پولیس کے حفاظتی عملے کے ہمراہ آنے والے ایک جج کو روک کر شناخت وغیرہ کے بارے میں سوال کرسکتے ہیں تو فوجی حفاظتی عملے کے ساتھ شہری علاقوں میں آنے والے کسی کرنل، بریگیڈئیر یا جنرل کو بھی پولیس کی جانب سے روک کر پوچھا جانا چاہیے کیونکہ شناخت تو کسی کے بھی ماتھے پر نہیں لکھی ہوتی اور اطلاعات کے مطابق کچھ گزشتہ واقعات میں دہشت گرد سیکیورٹی اداروں کی گاڑیوں کی مدد سے ہی اپنے اہداف تک پہنچے تھے۔

خیر، واپس چلتے ہیں اس واقعے اور نوٹس کی طرف۔ پاکستان میں ماتحت عدالتوں سے لے کر عدالتِ عظمیٰ تک فراہمیِ انصاف کے ضمن میں جو کچھ کیا جاتا ہے اسے جاننے اور سمجھنے کے لیے آپ کو کسی واقفِ حال سے ملنا پڑے گا اور وہ آپ کو بتائے گا کہ ہمارے ہاں انصاف کے حصول کے لیے لوگ برسوں تک کیسی کیسی ذلتوں کا سامنا کرتے ہیں اور اس سلسلے میں بالعموم عدالتی عملہ اور بالخصوص کرسیِ انصاف پر براجمان منصفین کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان کے عدالتی نظام کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہاں سے انصاف لینے کے لیے آپ کو قارون کی دولت، حضرت ایوبؑ کا صبر اور حضرت نوحؑ کی عمر درکار ہے۔ اگر یہ تینوں چیزیں آپ کے پاس نہیں ہیں تو بہتر یہی ہے کہ اپنا مقدمہ واپس لے لیں اور آپ کے ساتھ زیادتی بھی ہوئی ہو تو اسے بھول جائیں، بصورتِ دیگر زندگی بھر ذلیل ہونے کے لیے کمر کس لیں۔

عدالتوں میں انصاف کی فراہمی کے لیے بیٹھے ہوئے جج صاحبان چونکہ عزت مآب ہیں اور اس ملک کے تمام عام شہری ذلت مآب ہیں، لہٰذا یہ تو عزت مآب کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ ذلت مآب کو کب اور کیسے انصاف مہیا کرنا پسند فرمائیں گے۔ بیشتر عزت مآب برسوں تک یہ محسوس ہی نہیں کرتے کہ کسی ذلت مآب کو انصاف کی ضرورت ہے، سو یوں لوگ عدالتوں کچہریوں کے دھکے کھاتے رہتے ہیں اور ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ حصولِ انصاف کے لیے تگ و دو کرتے گزر جاتا ہے۔ وہ کن حالات سے گزرتے ہیں، ان پر کیا بیت رہی ہے، وہ کس کرب و الم میں مبتلا ہیں، ان کے لیے عرصۂ حیات کس حد تک تنگ ہوچکا ہے، یہ سب سوچنا عزت مآب کا کام نہیں ہے کیونکہ وہ عام آدمی نہیں ہیں، اسی لیے تو ان پر کسی بھی قسم کا کوئی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا، ان کے سامنے کوئی فضول بات نہیں کہی جاسکتی، ان کے کسی عمل پر تنقید نہیں ہوسکتی، ان کا احتساب نہیں ہوسکتا، انہیں کسی غلطی کے لیے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا، اور اگر کسی شخص کے دماغ میں یہ خناس بھرا ہوا ہے کہ وہ عزت مآب پر انگلی اٹھا سکتا ہے تو اسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ توہینِ عدالت کی پاداش میں عزت مآب اسے ایسا سبق سکھا سکتے ہیں کہ آئندہ وہ چاہ کر بھی یہ نہیں بھول پائے گا کہ وہ ایک ذلت مآب ابن ذلت مآب ہے!

لطف کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 227 کہتا ہے کہ اس ملک میں قرآن و سنت کے منافی کوئی بھی قانون سازی نہیں کی جاسکتی لیکن اس کے باوجود قانون کے تحت ہمارے منصفینِ کرام کو ایسی مقدس گائے بنا کر رکھا جاتا ہے جس کے کردار پر کوئی بات نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح صدرِ مملکت سمیت اور بھی کئی عہدوں کو استثنیٰ حاصل ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ ایک طرف عمر بن الخطاب جیسی جلیل القدر شخصیت ہیں جن کے سامنے کھڑا ہو کر ایک عام آدمی معمولی سی چادر کے حوالے سے بھی احتساب کے انداز میں سوال کرسکتا ہے اور دوسری جانب ہمارے منصفینِ کرام کی ماورائے احتساب و تنقید ہستیاں ہیں جن کے کسی عمل کے بارے میں استفسار تو دور کی بات ہے ان کی موجودگی کوئی ایسی چھوٹی سے چھوٹی حرکت بھی نہیں کی جاسکتی جو عزت مآب کی طبعِ نازک پر گراں گزرے۔ اب یہ پتا نہیں کہ قانون کے تحت بندہ و آقا جیسی یہ جو تمیز پیدا کردی گئی ہے اسے کس طرح قرآن و سنت کے مطابق قرار دیا جاسکتا ہے۔

اس موضوع پر لکھنے کو میرے پاس حوالے اور باتیں تو بہت سی ہیں لیکن ڈرتا ہوں کہ میں ایک ذلت مآب ہوں اور میری اتنی اوقات نہیں کہ کسی عزت مآب کے قلم کا ایک وار بھی برداشت کرسکوں، سو میں اپنی ذلت کی پوٹلی سمیٹ کر نکلتا ہوں، آپ سے پھر کسی نئے موضوع کے ساتھ ملاقات ہوگی۔

4 تبصرے:

  1. // فوجی حفاظتی عملے کے ساتھ شہری علاقوں میں آنے والے کسی کرنل، بریگیڈئیر یا جنرل کو بھی پولیس کی جانب سے روک کر پوچھا جانا چاہیے کیونکہ شناخت تو کسی کے بھی ماتھے پر نہیں لکھی ہوتی //

    عاطف بٹ : میرا خیال ہے کہ ایسا ہی ہونا چاھئیے ، لیکن :

    کینٹونمنٹ ایریاز اور سول ایریاز میں ایک بہت بڑا فرق ، انگریزی قوانین نے ڈال دیا ہے ۔

    ' پبلک علاقے " اور " سرکاری املاک " کا نام دے کر ۔ جیسے ایرپورٹ ایک پبلک علاقہ ہے ۔ لیکن رن وے ، جہاز کھڑے پونے کی جگہ سرکاری علاقہ و املاک ہے ۔ اِس سرکاری املاک میں کسی کرنل، بریگیڈئیر یا جنرل کو بھی پولیس کی جانب سے روک کر پوچھا جانا ہے کہ آپ یہاں کیوں اور کس کی اجازت سے جانا چاہتے ہیں؟ ۔ پولیسنگ کا یہ کام ، ائرپورٹ سیکیورٹی فورس کرتی ہے ۔
    یاد رہے کہ سرکاری املاک ، میں ایک جج کا چمبر اور عدالت بھی آتا ہے جس کے اندر ، کسی یونیفارم شخص کو بغیر شناخت کروائے اندر جانے کی اجازت نہیں ۔
    یہ وہ باتیں ہیں جو ایک محقق کو ملحوظ نظر کھنا چاھئیں ،

    اور ھاں انگریزوں کا بنایا ہوا ایک قانون آفیشل سیکریٹ ایک 1923 ضرور پڑھنا چاھئیے ۔
    آپ کا شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. محترم ۔ ابھی میں نے طائرانہ نظر ڈالی ہے ۔ دو موٹی سی باتوں بارے اپنا تجربہ بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ گستاخی ہونے کی صورت میں پیشگی معافی کی طلب کے بعد عرض ہے کہ ہمارے ہاں 90 فیصد لوگ مُنصف ہو یا مُدعی ۔ وکیل ہو یا مؤکل ۔ اَن پڑھ ہو یا پڑھا لکھا ۔ حاکم ہو یا ماتحت ۔ بغیر داڑھی ہو یا داڑھی والا ”جس کی لاٹھی اُس کی بھینس“ پر عمل کرتے ہیں ۔ باقی 10 فیصد جو صراط المستقیم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں اُن کی تواضع نامعقول خطابات سے ہی نہیں بلکہ تشدد سے بھی کی جاتی ہے ۔ ہمارے مُلک میں نظام انصاف اُس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک وکلاء کی اکثریت درست نہیں ہوتی اور عوام کی اکثریت قانون پر عمل کرنا شروع نہیں کرتی
    حالت یہ ہے کہ سچ پر چلنے والا جج ہو یا وکیل ۔ افسر ہو یا ماتحت اُس کیلئے دو وقت کی باعزت روٹی کمانا دوبھر کر دیا جاتا ہے ۔ یہی حال سرکاری محکموں کا ہے جس میں سوِل سرونٹ اور فوجی دونوں شامل ہیں ۔ غیر سرکاری محکموں میں سب سے زیادہ قصور وار ذرائع ابلاغ اور وہ عوام ہیں جو اپنا حق لینے کی کوشش نہیں کرتے یا اپنا حق چند سکوں یا وقتی ضرورت کے تحت بیچ دیتے ہیں ۔ وجہ صرف اللہ پر بھروسہ نہ ہونا یا اللہ کی بجائے فانی انسان کو اَن داتا سمجھ لینا ہے ۔ اور ہاں اگر کسی محلے میں کوئی صراط المستقیم پر چلنے والا رہتا ہو تو محلے دار اُس کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں ۔ کوئی امام مسجد ہو تو نمازی اور محلے دار مل کے اُسے ہٹانے پر تُل جاتے ہیں
    باقی اِن شاء اللہ مطالعہ کے بعد

    جواب دیںحذف کریں
  3. جناب عاطف بٹ صاحب

    سلام مسنون

    مین ابھی کل ہی سوچ رہی تھی کہ آپ نے کوی مضمون لکھا نہیں کافی عرصےسے ایک Reminder بھیجوں کیاآپ کو.!

    ظہر پڈھ کر بیٹھی تھی ک اردو فیڈز کا alert مسیج آیا. مزاہیہ Heading دیکھ کر بےساختہ ہنسی آگُی. پھر اپ کے نام پر نضر پڈی. ابھی مضمون نہیں دیکھی. اطمینان سے ایکسو ہوکر دیکھوں گی کیونکہ دلچسپ تہریر ہوگی.

    اردولکھت اور ٹایپنگ محترمی افتقار اجمل صاحب کی رہنمائ میں رہ کر سیکھ رہی ہو ں . مصیبت یہ ہے کہ ایک ایکلفظ کوبار بارڈھونڈنا پڈتاہے کہاں پرہے. DatsY It's an headache for me.

    Really tired.!
    اللہ حافظ
    بشرٰی خان

    جواب دیںحذف کریں
  4. جناب عالی ۔ اپنے مطالعہ اور تجربہ کے مطابق عمومی صورتِ حال تو بیان کر چکا ہوں ۔ آپ کی تحریر کا مطالعہ کرنے کے بعد انتہائی اختصار اختیار کرنے کے باوجود تحریر بہت طویل ہو گئی ہے ۔ اسے مختصر کر کے اِن شاء اللہ کل اپنے بلاگ پر شائع کروں گا ۔ اُمید ہے کہ آپ محسوس نہیں فرمائیں گے

    جواب دیںحذف کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں