تازہ ترین
کام جاری ہے...
اتوار، 24 مئی، 2015

بنتے ہیں تیرے چار سو، فی الحال چار رکھ


گزشتہ تقریباً گیارہ برس کے دوران میں ذرائع ابلاغ کے درجن بھر اداروں کے ساتھ مختلف حیثیتوں میں کام کرچکا ہوں۔ ان اداروں میں دن رات مذہبی اور نظریاتی وابستگی کے کھوکھلے نعرے لگانے والے بھی شامل ہیں اور انسانی حقوق اور جمہور پرستی کے نام نہاد چیمپئن بھی۔ مطبوعہ اور نشریاتی صحافت کے ان درجن بھر اداروں میں رپورٹر، ایڈیٹر اور اینکر وغیرہ کی حیثیت میں کام کرتے ہوئے جو کچھ دیکھا وہ اپنی جگہ ایک داستان ہے جسے مکمل طور پر بیان کرنے کے لیے یہ موزوں موقع نہیں ہے کہ ابھی تو مجھے بات کسی اور حوالے سے کرنی ہے۔

صحافت کے علاوہ میں کچھ اور صنعتوں میں بھی ملازمت کرچکا ہوں، لہٰذا ان کے حال سے بھی واقف ہوں کہ وہاں کیا کچھ ہوتا ہے۔ پاکستان میں بالعموم کسی بھی صنعت میں اور بالخصوص صحافت میں یہ رواج ہی نہیں ہے کہ کسی کو اس کا محنتانہ مناسب وقت پر اور موزوں شکل میں ادا کردیا جائے۔ اول تو تنخواہ مقرر ہی اتنی کی جاتی ہے کہ اس سے بس گھر کا چولہا جلتا رہے، اس پر کچھ پکنا نہ پکنا ادارے کا مسئلہ نہیں ہے۔ اگر کوئی ادارہ حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے معاوضے کو کسی معقول سطح پر لانا بھی چاہے تو وہ جان اور تن کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے کفایت کرنے والی رقم سے زیادہ پیسے دینے پر آمادہ نہیں ہوتا۔

اخبارات میں اخلاقیات اور انسانی اقدار پر مضامین لکھنے والے اور ٹیلیویژن چینلز پر بیٹھ کر ظالم حکمرانوں کو کوسنے والے خود کیا کچھ کرتے ہیں، اس کا احوال مجیب الرحمٰن شامی، نذیر ناجی، ضیاء شاہد، حسن نثار، عرفان صدیقی، ہارون الرشید اور اسی قماش کے دیگر صحافیوں کو قریب سے دیکھنے والوں کو بخوبی معلوم ہے۔ اس فہرست میں سے ایک بزرگ کا نام ان کے مرحوم ہونے کی وجہ سے کاٹ دیا گیا ہے ورنہ کارکنوں کا استحصال کرنے اور نظریاتی وابستگی کے نام پر لوگوں کو بےوقوف بنانے کے حوالے سے وہ ملک بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔

ملک بھر میں موجود صحافیوں کی تنظیمیں بھی استحصال اور ظلم و ستم کے اس سلسلے میں مالکان اور بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کا بھرپور ساتھ دیتی ہیں۔ صحافت سے وابستہ ہزاروں کارکن ایسے ہیں جنہوں کئی کئی مہینے ان کے اداروں کی طرف سے ایک پھوٹی کوڑی بھی ادا نہیں کی جاتی اور آج تک کسی ایک صحافتی تنظیم کی طرف سے بھی اس سلسلے میں کوئی مؤثر لائحہ عمل اختیار نہیں کیا گیا۔ اگر اس مسئلے پر زیادہ شور مچ جائے تو ایک آدھ اجلاس بلا لیا جاتا ہے جس میں نشستن، گفتن، برخاستن کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔

زرد صحافت کا علم اٹھانے والے صحافتی ادارے ملک کے ساتھ کیا کچھ کرتے ہیں اس کا اندازہ لگانا بھی زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اے آر وائی کے مرحوم مالک بہت ہی نیک آدمی تھے اور ان کی نیکی کی ایک شاندار مثال یہ ہے کہ آپ نے ایم سی بی سے پانچ ارب روپے سے زائد کا قرضہ لیا تھا جو آج تک واپس نہیں کیا گیا اور بینک رقم واپس مانگتا ہے تو اس کے خلاف پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔ جیو اور اے آر وائی سمیت پاکستان کے ہر نجی ٹی وی چینل نے ٹیکس کی مد میں حکومت کے کروڑوں اربوں روپے دینے ہیں لیکن کیا مجال کے کوئی ان کے خلاف کچھ بول سکے۔

اب ان سب غنڈوں اور چور ڈاکوؤں کے مقابلے میں شعیب شیخ نے 'بول' کا اعلان کیا اور کارکن صحافیوں کو اچھی تنخواہیں اور مراعات دینے کی بات کی تو ان سب کی چیں بول گئی۔ پاکستان میں تو یہ سلسلہ چل رہا ہے کہ خبری اداروں کے نام پر عقوبت خانے قائم کیے جاتے ہیں اور وہاں ملازمت کے نام پر غلام بھرتی کیے جاتے ہیں۔ ان غلاموں سے جو کام لیا جاتا ہے اس کے بدلے میں کسی معاوضے کی بات ہو تو اس حوالے سے مالکان نے ایک بہت سیدھا سا کلیہ اختیار کررکھا ہے کہ
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ
بنتے ہیں تیرے چار سو، فی الحال چار رکھ

اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں شعیب شیخ کو کوئی مسیحا سمجھتا ہوں جو کارکن صحافیوں کے مسائل حل کرنے کے لیے آسمان سے نازل ہوا ہے لیکن وہ کچھ بھی ہے اور جس کے ایماء پر بھی آیا ہے، کم از کم وہ ان لوگوں سے بہتر ہے جو کروڑوں اربوں روپے بھی کھا جاتے ہیں اور ظلم و ستم بھی اس حد تک کرتے ہیں کہ ان کی وجہ سے کئی لوگ اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو چکے ہیں۔ کون جانتا ہے کہ کتنے کارکن صحافیوں کے بیوی بچے یا ماں باپ اور بہن بھائی ان خبیث مالکان اور بڑے عہدوں پر بیٹھے حرامخوروں کی وجہ سے کتنے کتنے دن تک ایک وقت کی روٹی کو بھی ترستے رہے؟ کون بتا سکتا ہے کہ کتنے ایسے کارکن صحافی ہیں جن کے گھروں میں بیمار پڑے ان کے عزیزوں کو محض اس لیے دوا نصیب نہیں ہوسکی کیونکہ ان کے اداروں کے بدمعاش مالکان محنتانہ ادا نہیں کررہے تھے؟ کس کے علم ہے کہ ان صحافیوں کی تعداد کتنی ہے جو ہر روز سسک سسک کر اس آس پر دفتر جاتے رہے کہ شاید آج انہیں کئی مہینے کی رکی ہوئی تنخواہ میں سے کچھ پیسے مل جائیں اور وہ ان کی مدد سے اپنے پیاروں کے چہروں پر لگے رنج و الم کے داغ دھو سکیں؟ کسے پتہ ہے کہ ایسے کتنے صحافی ہیں جنہیں تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے ان کے وابستگان عید کے روز بھی پڑوسیوں کے رحم و کرم پر رہے؟

لمبے عرصے تک ایک کارکن صحافی کے طور پر کام کرنے اور سینکڑوں کارکن صحافیوں کو ذاتی طور پر جاننے کی وجہ سے میں یہ بات دعوے سے کہتا ہے کہ شعیب شیخ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی گھٹیا پن، حرامخوری اور رذالت کے اس درجے تک نہیں پہنچ سکتا جہاں ہمارے مطبوعہ اور نشریاتی صحافتی اداروں کے مالکان اور ان کے بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ پہلے سے براجمان ہیں۔ اسلام، پاکستان، انسانیت، جمہوریت، یہ سب وہ خوشنما نعرے ہیں جن کو استعمال کر کے یہ حرامخورانِ قوم دن رات لوگوں کو بےوقوف بناتے ہیں۔ ان لوگوں کے بارے میں پورے حقائق سامنے آجائیں تو شعیب شیخ اپنی تمام تر خباثتوں کے باوجود ان کے مقابلے میں ایک فرشتہ نظر آئے گا۔


پس نوشت: بعض قارئین/احباب کو اس مضمون میں میرا لہجہ بہت تلخ لگا ہوگا لیکن اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ
گفتار کے اسلوب پہ قابو نہیں رہتا
جب روح کے اندر متلاطم ہوں خیالات

7 تبصرے:

  1. Bahot Sahi Danda kiya..

    Wah Butt sahab

    Mukarrar Irshad.!

    Aap ne jinke liye ye mazmun likha hai unke liye Aap ka lab o lahja Qat'an Talq nahi tha balke kuch kami mahsus hui.

    Choron Uchakkon se Sharafat ki Zaban men bath unke palle nahi padti.

    B
    A

    جواب دیںحذف کریں
  2. مسئلہ یہ ہے کہ شعیب شیخ کو اگر بول کی وجہ سے ایگزیکٹ کے کیس میں پھنسایا جارہا ہے تو بالکل اسی وجہ سے نکالا بھی جا رہا ہے جیسا کہ ہونا نہیں چاہیے۔ میرے خیال سے ایگزیکٹ کا فیصلہ آنے تک ہمارا کسی رائے پر ڈٹ جانا صرف اس وقت مناسب ہوگا کہ جب ہمارے پاس کسی ایک پارٹی کے حق میں دلائل ہوں۔

    مانا کہ بول سب سے بہترین ادارہ ہے لیکن بحیثیت مسلمان کیا ہمیں یہ گوارہ ہوگا کہ ایگزیکٹ کی (مبینہ) جعل سازیوں سے حاصل ہونے والی رقم کی اصلیت جاننے کے بعد ہم اس میں سے اپنا حصہ لے کر ہم اپنے بچوں کا پیٹ بھریں؟ ظاہر ہے اس سوال کا جواب کیس کا فیصلہ آجانے پر ہی دیا جاسکتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. Maf kijye Ga !

      Ba hysiyate ek Musalman ke aap ko pahle se pata nahi tha isiliye aap hisse dar ban gaye. Aur agar koi galat kam kar raha ho to wo Pysa Uske liye naiayz o haram hua. Dusron ke liye kyu hua.?

      Isiliye us hisse se Bachon ka Pet bharna bilkul jaez hai. Isme koi Do Ra'e nahi.

      Bushra khan

      حذف کریں
    2. Haan.!

      Agar aap ko pahle se (mubayyana) Jal Sazion ka ilm hua hota aur phir bhi Aap hisse dar bante tab Bacho ke sath khud bhi haram khate hote aur Gunah Gar Alag Se Hote. Tab hi pata chalta ke Aap men kitni Musalmaniyat Hai..!

      Bushra khan

      حذف کریں
  3. محترم ۔ آپ نے تو کچھ بھی تلخ نہیں لکھا ۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ صحافت اختیار ہی وہ کرتے ہیں کہ جو دنیا میں کوئی حلال کام نہیں کر سکتے ۔ ایک وقت تھا جب صحافت میں زیادہ تر دیانتداری ہوتی تھی لیکن وہ بہت پرانی بات ہے یعنی میرے بچپن کی اور آپ کی پیدائش سے بہت پہلے کی
    دیگر میں اسد اسلم صاحب کی تائید کرتا ہوں ۔ اگر طوائف جسم بیچ کر یا قمار باز جُوئے سے پیسہ اکٹھا کرے اور اس سے حج کرے تو وہ کسی صورت پاک نہ ہوں گے کیونکہ خیرات اور ثواب حلال کمائی کے ساتھ وابستہ ہیں
    ایگزیکٹ ہی اکیلا نہیں ہے ۔ ایسے کئی ادارے دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ ایگزیکٹ سے قبل ایک بڑے نام کا ادارہ جو اب عزت دار بنا بیٹھا ہے یہی کام کرتا تھا
    اور ہاں یہ کام کوئی نہیں کر سکتا ۔ اسے چلانے کیلئے اپنے مُلک کے متعلقہ سرکاری محکموں اور دوسرے ملکوں کے بارسوخ لوگوں کو ساتھ ملانا پڑتا ہے
    آخر میں آپ سے میرا ایک سوال ہے ۔ اس کا سبب کیا ہے کہ سالہا سال سے چلنے والے صحافتی ادارے تو بہے کم مشاہرہ دیں اور وہ بھی ترسا ترسا کر لیکن ایک نیا صحافتی ادارہ چھوٹتے ہی بڑے مشاہرے دینے شروع کر دے ؟

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. سر، آپ کا سوال بالکل جائز اور درست ہے۔ 'بول' کسی خاص طاقت کے ایما پر آیا ہے اور تنخواہ اور مراعات دینا اس طاقت کے ایجنڈے کا حصہ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی ایک بھی ایسا بڑا خبری ادارہ نہیں ہے جو اپنے وسائل سے چل رہا ہو، سبھی کہیں نہ کہیں سے کچھ نہ کچھ لے ہی رہے ہیں۔ 'بول' اور باقیوں میں فرق یہ ہے کہ باقی صرف اپنی جیبیں بھررہے ہیں اور 'بول' کارکنوں کی جیب میں بھی کچھ نہ کچھ ڈال رہا ہے۔

      حذف کریں
  4. Mohtrami Iftiqar Ajmal sahab

    Salam e masnoon

    Aap buzurg hyn. Apka ehtram karti hun. Per bath ilmi naoiyat ki hy.

    Aap ki bath ke us hisse se muje eqtelaf hai jo Aap "prostitute" ko beech men le Aaye.

    "" Narrated Abu Hurairah (raz) that Allah's Apostle (saw) said, "A prostitute was forgiven by Allah, because, passing by a panting dog near a well and seeing that the dog was about to die of thirst, she took off her shoe, and tying it with her head-cover she drew out some water for it. So, Allah forgave her because of that."

    Upar ki Hadees se mujhe ye estedlal nahi Lena hai ke prostitute ki kamai jaez hai.

    Wyse Kisi bhi Context men Aap Hadees ko le sakte hain. Bahot kuch gunjaish hai Usme Sochne aur Tadabbur ke liye.

    Tijarat agar bajaye khud Halal Noiyath ki ho aur jaez Tariqon se ki jaye to Usme Kisi Sahafi ya xyz ki shirkat mahez is wajeh se Na jaez nahi ho sakti ke Dusre Share Holders ya Main Holder ki Qufiya sargarmiyon ke zarye Najaez kamai bhi ho rahi ho.

    Agar aap ki mehnat Apki activities Halal hain to jo Profit Munafa Aap ko milega wo aap ki Halal mehnat ka milega aur woh share Aap ke liye Halal hoga. Chahe us Profit me haram bhi shamil ho.

    Knowledge men ajane ke bad Dobara Ayse partners ke sath shamil hona munasib na hoga.

    Prostitute ki baat usi waqt sahi Mani jati jab Sahafi hazrat bhi usi Najaez kam men baraber ke shareek hote. Tab hi wo Share unke liye Haram hota.

    Bushra khan

    جواب دیںحذف کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں