تازہ ترین
کام جاری ہے...
جمعرات، 30 جولائی، 2015

سوچ مرتی نہیں، انسان ہیں مرتے رہتے


تقریباً دو دہائیاں قبل وجود میں آنے والی کالعدم لشکرِ جھنگوی کے بانی امیر ملک اسحاق کو ان کے دو بیٹوں، ملک عثمان اور ملک حق نواز، اور دس سے زائد ساتھیوں کے ہمراہ جس مبینہ پولیس مقابلے میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اس کی تفصیلات پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس پوری کارروائی کی نوعیت کیا رہی ہوگی۔ اس خبر کے انٹرنیٹ پر آتے ہی سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر مختلف طرح کے تاثرات دیکھنے میں آئے۔ جو لوگ ملک اسحاق کو دہشت اور بربریت کی علامت سمجھتے تھے وہ خوشیاں منارہے اور مبارکبادیں دے رہے تھے جبکہ مقتول کو ردعمل کی ایک بڑی قوت کا درجہ دینے والے لوگ مذکورہ پولیس مقابلے کو ریاستی دہشت گردی اور ظلم سے تعبیر کررہے تھے۔

اس پورے واقعے کے تناظر میں بیشتر لوگ محض ملک اسحاق اور ان کے ساتھیوں کا قتل دیکھ رہے ہیں اور مجھے اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کی فکر لاحق ہے۔ ایک تو فرقہ واریت کی بنیاد پر قتل اور دوسرا ماورائے عدالت؛ ایسی صورتوں میں ردعمل شدید نہیں، شدید تر ہوتا ہے، اور ویسے بھی جہاں لڑائی فرقے یا نظریے کے نام پہ لڑی جارہی ہو وہاں کسی ایک فرد یا چند افراد کے مارے جانے سے نفرت کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوتی بلکہ مزید بھڑکتی ہے۔ ملک اسحاق ایک انسان کا نام تھا جس نے بہرطور مرنا ہی تھا لیکن لشکرِ جھنگوی ایک سوچ اور ایک نظریے کا نام ہے جو تب تک زندہ رہے گا جب تک اس کے وجود کا جواز فراہم کرنے والی وجوہ کو ختم نہیں کیا جاتا۔

لشکرِ جھنگوی کی بنیاد رکھنے والے لوگ انجمن سپاہِ صحابہ یا سپاہِ صحابہ پاکستان کے پروردہ اور تربیت یافتہ تھے جسے حق نواز جھنگوی نے ستمبر 1985ء میں قائم کیا تھا۔ فروری 1990ء میں حق نواز جھنگوی کو قتل کردیا گیا تو ان کے ساتھیوں ریاض بسرا، اکرم لاہوری اور ملک اسحاق نے 1996ء میں اپنے سابق امیر کے نام سے ہی لشکرِ جھنگوی کا آغاز کردیا۔ بہت سے لوگ اپنی نظریاتی وابستگی یا کسی اور وجہ سے اس بات سے انکار کرتے ہیں لیکن یہ سب کچھ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی انتہائی خوفناک صورتحال اس متن کا ضمیمہ تھی جسے ہم ایرانی انقلاب کو پاکستان درآمد کرنے کا منصوبہ کہہ سکتے ہیں۔ بعدازاں، اس پوری صورتحال میں دونوں جانب سے غیرملکی عناصر کچھ اس طرح شامل ہوگئے کہ حکومت چاہ کر بھی بگڑتے ہوئے معاملات کو اپنے قابو نہیں کر پائی۔

یہ بات بہت افسوسناک ہے کہ گذشتہ ساڑھے تین دہائیوں سے پاکستان فرقہ واریت اور مذہبی انتہاپسندی کی جس آگ میں مسلسل جل رہا ہے ہمارے ذرائع ابلاغ اس کے صرف ایک پہلو کے بارے میں ہی بات کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ذرائع ابلاغ کے اس متعصب اور دوہرے رویے کی وجہ سے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید بگاڑ کی طرف گامزن ہوئے۔ اسی طرح ریاست جس کا کام معاملات میں توازن قائم کرنا اور لوگوں کو احساسِ تحفظ فراہم کرنا تھا وہ بھی اپنے میلان کو قابو میں نہیں رکھ پائی۔ اگر آج بھی ریاست یہ طے کر لے کہ کسی بھی قسم کے تعصب اور تمیز کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کو واقعی فرقہ واریت کے عفریت سے نجات دلانی ہے تو مسائل کا حل یقیناً ممکن ہے لیکن اگر اس سلسلے میں متوازن حکمتِ عملی اختیار نہ کی گئی تو اس کے جو منفی نتائج برآمد ہوں گے ان کا تدارک شاید کسی بھی طرح ممکن نہیں ہوپائے گا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر حق نواز جھنگوی کے قتل کے بعد اس نظریے کا علم تھامنے کے لیے ریاض بسرا، اکرم لاہوری اور ملک اسحاق کھڑے ہوسکتے ہیں تو ملک اسحاق کے قتل کے بعد بھی ایسے اور بہت سے لوگ سامنے آسکتے ہیں جو معاشرے کے ایک طبقے کے لیے دہشت اور بربریت کی علامت ہوں گے تو دوسرا طبقہ انھیں ردعمل کی تحریک کا علمبردار سمجھے گا۔

2 تبصرے:

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں